خوف کا سفر: سائے سے ہمسائے تک

0

عبدالسلام عاصم
مجرم کو دی جانے والی سزاؤں کو جو معاشرہ انجوائے کرنے کی عادت ڈال دیتا ہے، اُس معاشرے کو سماجی برائیوں سے پاک کرنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ایسے معاشرے میں آگے چل کر جرم و سزا کی کہانیاں ادب، آرٹ اور فلم کا اٹوٹ حصہ بن جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے برصغیر ہند و پاک کے معاشرے کا عصری منظر نامہ قطعی اطمینان بخش نہیں۔ درونِ ملک ’’کشمیر کی کلی‘‘سے ’’بے تاب‘‘تک ایک سے زیادہ فلموںکے وسیلے سے پردۂ سیمیں کی زینت بننے والے جنت نظیر خطے کو جب وقت کے فرعونوں نے جہنم زار میں تبدیل کر دیا تو اُسی خطے کو’’لمحہ‘‘، ’’مشن کشمیر‘‘، ’’اوشیئن آف فیئرس‘‘، ’’پاپا2-‘‘، ’’حیدر‘‘، ’’راضی‘‘ اور دوسری فلموںسے ’’دی کشمیر فائلس‘‘ تک یکطرفہ سفر کا بھی حصہ بننا پڑا۔
جرم وسزا کی بیشتر کہانیاں ویسے تو کسی نہ کسی رخ پر سچ کی ہی ترجمانی کرتی ہیں لیکن ایسی کہانیوں میں اکثر سچائی کا ایک رُخ ہی پیش کیا جاتا ہے اور کہانی نویس اُسی سچ کی بنیاد پر معاملہ فیصل کر دیتا ہے۔ جبکہ انصاف کی نظر میںسچ وہ ہے جو بلا مبالغہ سب کیلئے سچ ہو۔ اس لحاظ سے بر صغیر کامعاشرہ اگر انصاف کے معیار پر پورا نہیں اُترتا تو اس کے ذمہ دار کم و بیش ہم سب ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے کی ایسی عادت پڑ گئی بلکہ ڈال دی گئی ہے کہ اب ہم خود احتسابی سے کام لینے کے شاید متحمل ہی نہیں رہ گئے۔
دراصل ہم آزادی حاصل کرنے سے پہلے ہی بٹوارے کو ناگزیر بنانے والوں کے ہتّھے چڑھ گئے تھے۔ اِس طرح ہمیں گھر کی حفاظت کی خاطرمضبوط چہار دیواری کھڑی کرنے سے کہیں زیادہ دلوں کے آنگن میں دیوار اٹھانے کی ایسی عادت پڑ گئی کہ 1947 میں ایک دیوار اٹھا نے پر ہی قانع نہیں ہوئے، 1971 میں اِس مذموم کوشش کو دہرانے میں پھر کامیابی حاصل کرلی۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے خارجی تجربے سے دل بھر گیا ہے اور ہم داخلی سطح پراِسی تجربے کو آزمانے کی غیر سائنسی کوشش میں لگ گئے۔ اِس رُخ پر ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی سے ماب لنچنگ تک تشدد کی نئی نئی شکلیں ایجاد کرتے پھر رہے ہیں۔
علم جو کائنات کی تسخیر کی کلید ہے۔ اس سے براہِ راست سروکار سے ہماری دوری اور عالمگیریت سے منفی استفادہ کرنے سے دلچسپی نے اِس خطے کو بدترین تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہم انتہائی ہلاکت خیز اور تباہ کن ہتھیاروں کی خریداری کی صلاحیت کو ازخود ہتھیار سازی میں بدل کر ہتھیار بیچنے کا متحمل بن جانے کو ترقی سمجھنے لگے ہیں۔ یہ سوچ ہرگز علمی نہیں بلکہ مفسدانہ ہے اور اِس رُخ پر ہر راستہ حقیقی اطلاعات سے دوراور افواہوں سے آلودہ ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ’’سائے‘‘ سے ڈرنے والا بچپن جب علم کے بغیر صرف عقائد کے ساتھ بلوغت کی دہلیز پار کرتا ہے تو ’’ہمسائے‘‘ سے ڈرنے لگتا ہے۔
برصغیر کا عصری منظر نامہ اسی سچ سے عبارت ہے جس میںکسی برادری پر ’’ ظلم سے انکار والے جھوٹ‘‘ کے خلاف ’’دی کشمیر فائلس‘‘ جیسی مبالغہ آمیز اور’’یکطرفہ سچائی‘‘ ہی سامنے آسکتی ہے۔ اس حمام میں صرف ہم ہی ننگے نہیں، سرحد کے اُس پار کا بھی یہی حال ہے۔جہاں کشمیر کے تنازع سے سقوط ڈھاکہ تک کا ہر آنکھوں دیکھا حال بالکل ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس پورے خطے کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے کہ یہاں نئی نسل کی ایسی ذہن سازی کی جارہی ہے جو بہتر ہمسائیگی کے حق میں کسی طرح فالِ نیک نہیں۔ہم باہمی اختلاف مل بیٹھ کر دور کرنے کے متحمل اس لیے نہیں ہیں کہ ہم نے گزشتہ 75 برسوں میں صرف جسمانی بلوغت کا سفر طے کیا ہے۔ذہنی طور پر ہم اب تک بالغ نہیں ہو پائے ہیں۔کہتے ہیں کہ جن کے خانگی جھگڑے پنچایتوں میں فیصل ہونے لگتے ہیں، وہ گھرانے شرم اور لحاظ کا پاس رکھنے کے متحمل نہیں رہ جاتے اور اس کا فائدہ اکثر پنچایتی بنچ میں سے ہی کوئی تیسرا اٹھا لیتا ہے۔ وائے بدنصیبی آج بھی ہم بین الاقوامی مجالس میں گھر /آنگن کے جھگڑے لے کر پہنچ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل انقلاب کی برکتوں سے بہرہ ور کرنے کے بجائے ہمسائے سے ڈرا کر ہی تربیت کا کام چلا رہے ہیں۔
یہ انتہائی المناک منظر نامہ ہے۔ اسے بدلنے کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو عجب نہیں کہ کل ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کو ہیری پوٹر کی کتابوں کی جگہ بر صغیر کی تاریخ پڑھنے میں مزہ آنے لگے۔ ماب لنچنگ سے نسل کشی تک کی باتیں جس طرح سر عام کی جارہی ہیں اور فلم، آرٹ اور ادب کے ذریعہ جس طرح ذہن سازی کی جارہی ہے،عجب نہیں کہ بظاہرڈری اور سہمی ہوئی اکثریت کو اسلاموفوبیا اُسی راستے پر ڈال دے جس راستے پر چل کر کل جوڈو فوبیا سے نجات کی سنگین اور ہلاکت خیز کوشش کی گئی تھی۔اِس کوشش کے ایک مبینہ منظر نامے میں ایک یہودی عورت کو مار مار کر ہلاک کرنے والے ایک تیرہ چودہ سال کے لڑکے کو اس یقین سے سرشار دکھا یا گیا ہے کہ وہ کسی انسان کو نہیں چڑیل کو مار رہا ہے۔
ابھی گزشتہ دنوںکرناٹک کے کچھ حصوں میں ہندو مذہبی تہواروں اور میلوں کے دوران مسلم دکانداروں کو مندر کے احاطے میں کاروبار کرنے سے منع کیے جانے کے بعد، معروف پیجاور مٹھ کے وشویش تیرتھ سوامی جی نے کہا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی کے کچھ واقعات نے اس ’’دھماکہ خیز صورتحال‘‘کو جنم دیا ہے۔ان کا یہ بیان بھی غلط نہیں یکطرفہ سچ ہے۔
بہر حال ایک طرف جہاں تشویشناک تاریکی بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری جانب روشنی کو بچانے کی امید بھی باقی ہے۔ چند روز قبل نئی نسل کے ایک نمائندے سے گزشتہ سال اور اس سال کے اسمبلی انتخابات کے دو بڑے نتائج اور طلاق ثلاثہ قانون کے علاوہ حجاب کی موافقت اور مخالفت اور دونوں میں شامل سیاست پر بات چیت کے دوران شریک گفتگو ایک نوجوان نے یہ کہہ کر میری ناامیدی کے اندھیرے میں روشنی ضرور پیدا کر دی کہ ’’ قومی زندگی اور قومی شاہراہ میں ایک مماثلت یہ پائی جاتی ہے کہ ان میں بالترتیب چند دہائی یا چند میٹر پر راستہ بدلنے کی گنجائش تو نہیں ہوتی لیکن کئی دہائیوں یا کئی کلومیٹر کے بعد ایک راؤنڈ ایباوٹ(گول چکر) ضرور آتا ہے جو اندیشوں کا رُخ امکان کی طرف موڑ دیتا ہے۔بربریت اور جہالت کے دور کی جو علامات آج بھی ہماری زندگی کا حصہ ہیں، اُن سے سمندر کی طرح پھیلے دنیا کے ایک بڑے خطے کو نجات مل چکی ہے۔ہماری ندیاں بھی ایک دن اس سمندر سے جا ملیں گی‘‘۔
اس نوجوان نے دوران گفتگو کہیں ادعائیت سے کام نہیں لیا۔ میں نے خود کچھ بولنے کے بجائے اُس نوجوان کی اور بھی بہت سی باتیں سنجیدگی سے سنیں اور اس اندیشے سے یکسر باہر نکل گیا کہ رات کبھی سورج کو نگل بھی سکتی ہے۔ اس ملاقات کا سب سے بڑا سبق یہ تھا کہ سماج میں نفرت، زیادتیاں اور فرقہ وارانہ تفریق کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر بولنے والا دوسرے کو سننے کی عادت اپنائے اور کسی شخص یا قوم کے بارے میں کوئی یکطرفہ رائے قائم کرنے سے زیادہ اُس شخص یا قوم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی کو اپنی بات کہنے کا بھرپور وقت دیا جائے تاکہ چپ ہونے سے پہلے اسے صرف یہ اطمینان ہوجائے کہ اُس نے سب کچھ کہہ دیا۔ سننے والا بھی اُسے یہ تاثر ضرور دے کہ اُس کی باتیں ویسی ہی سنی اورسمجھی گئی ہیں جیسا وہ کہنا چاہ رہا تھا۔وقت آگیا ہے کہ ہم فلم، ادب اور آرٹ کے ذریعہ ذہن سازی کا رُخ مفروضہ دشمن سے انتقام کے بجائے زندگی کے تحفظ کی جانب موڑیں کیونکہ موت برحق تو زندگی حق ہے۔
بات چیت ڈنر کے ساتھ ختم کر کے جب میں گھر لوٹنے لگا تو ذہن کچھ اِس رخ کا کام کر رہا تھا کہ ملک کے عوام ایک عجیب قومی المیے سے دوچار ہیں۔ اکثریت ’’ ماضی کی افسانوی عظمت‘‘ کو بحال کرنا چاہتی ہے اور اقلیت ’’مستقبل کی پیشین گوئیوں‘‘ میں بری طرح اُلجھی ہوئی ہے۔ وسائل میسر ہونے کے باوجود ’’حال‘‘ کو بہتر بنانے کی کسی کو کوئی پروا نہیں۔ بد قسمتی سے ہم واہموں اور عقائد کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ دراصل ہم دونوں کو حقیقی اور سائنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم یکطرفہ سچ سب سے منوانے کے بجائے اُس سچ سے رجوع کریں جو بلا مبالغہ سب کیلئے سچ ہو۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS