مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت ایک نظر میں۔
امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات کا میدان بہت ہی وسیع و عریض ہے ، اس وسیع میدان میں آپ نے مختلف حیثیتوں سے کام انجام دیا ہے کیونکہ بعض رسائل و جرائد وہ تھے جو خود آپ کی ملکیت میں تھے اور آپ بذات خود انکی ادارات کا فرائض بھی انجام دیتے تھے، بعض رسائل و جرائد وہ تھے جسکی ملکیت آپ کے ہاتھوں میں تو تھی لیکن ادارتی کاموں کی ذمہ داری کسی اور کو دی گئی تھی۔
بعض اخبار ایسے بھی تھے جو آپ کی نگرانی میں ضرور نکلتے تھے لیکن اسمیں مالکانہ و مدیرانہ تعلق بالکل تھا اور بعض اخبار ایسے بھی تھے جسکے آپ مالک نہیں تھے لیکن ادارتی فریضہ اسمیں ضرور انجام دیتے تھے، بعض اخبار ایسے تھے جس میں آپ اعزازی طور پر کام کرتے تھے تو بعض ایسے اخبار تھے جسمیں تنخواہ لیکر کام کرتے تھے۔
چونکہ مولانا نے اخبارات میں متعدد حیثیتوں سے کام کیا تھا اسی لئے آپ کو اخبارات کے ہر طرح کے کاموں کا تجربہ ہو گیا تھا، اسی لئے مناسب ہوگا کہ مولانا آزاد کے ان مختلف حیثیتوں کے مطابق اخبارات کے تقسیم پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے۔
(١) ایسے رسائل و اخبارات جو مولانا ابوالکلام آزاد کی ادارت میں نکلتے تھے اور انکے مالکانہ حقوق بھی آپ کو حاصل تھے،
الف: نیرنگ عالم۔
ب: المصباح۔
ت: لسان الصدق۔
ث: الہلال۔
ج: البلاغ۔
نیرنگ عالم کلکتہ: یہ ایک گلدستہ تھا جو آپ نے شاعری کے شوق و ذوق میں نکالا تھا اور اسکے مالک بھی آپ خود تھے۔
المصباح کلکتہ: شاعری کے بعد مولانا کو مضمون نگاری کا شوق ہوا تو آپ نے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے المصباح کو جاری کیا، آپ المصباح کے مالک بھی تھے اور مدیر بھی۔
لسان الصدق کلکتہ: یہ ایک علمی رسالہ تھا جو بعض دوستوں کے مشوروں خصوصاً مولوی محمد یوسف جعفری رنجور عظیم آبادی اور انکے تعاون سے جاری کیا تھا، اس اخبار کے مالکانہ حقوق بھی آپ کو حاصل تھے۔
الہلال کلکتہ: الہلال مولانا آزاد کا ذاتی اخبار تھا جو اسلام، ملک و ملت اور قوم کے مفاد کے تحت نکالا گیا تھا، اس اخبار کا اپنا ایک پریس تھا، انتظامی اور ادارتی عملہ تھا اسے ایک منظم ادارے کی حیثیت حاصل تھی، مولانا آزاد خود اسکے مدیر اور تمام کاموں کے ذمہ دار تھے۔
البلاغ کلکتہ: یہ اخبار بھی مولانا کا ذاتی اخبار تھا اس اخبار کا بھی ایک انتظامی اور ادارتی عملہ تھا اور اسے ایک منظم پریس کی حیثیت کی حاصل تھی گویا کہ نام کی تبدیلی کے ساتھ یہ اخبار الہلال ہی تھا۔
(٢) وہ جرائد و مجلات جو مولانا ابوالکلام آزاد کی ملکیت میں ضرور تھے لیکن انکی ادارات کی ذمہ داری دوسروں کے سپرد تھی، مولانا اس اخبار کے پالیسی کے نگراں ضرور تھے لیکن ادارتی اور انتظامی معاملات میں آپ ذمہ دار حضرات کو ہدایت فرماتے تھے۔
الف: پیام کلکتہ۔
ب: الہلال کلکتہ۔
پیام کلکتہ: پیام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اخبار مولانا آزاد کا ذاتی اخبار تھا، وہی اسکے اڈیٹر ا ر مدیر تھے لیکن ادارتی امور کی انجام دہی مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے سپرد کی گئی تھی۔
الہلال کلکتہ: یہ بھی مولانا آزاد کا ذاتی صحیفہ تھا، ضابطے کے مطابق مولانا آزاد اسکے اڈیٹر اور جواب دہ بھی تھے لیکن ادارتی کاموں کو مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ہی سنبھالتے تھے۔
(٣) وہ اخبار جو مولانا آزاد کی نگرانی میں جاری تو ہوتے تھے لیکن وہ آپ کی ملکیت میں نہیں ہوتے تھے نہ آپ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے نہ ہی قانونی جواب دہ تھے لیکن مولانا اسکے اڈیٹروں کو ہدایت ضرور فرماتے تھے اور اس اخبار پر گہری نظر ضرور رکھتے تھے۔
الف: اقدام کلکتہ۔
الجامعہ کلکتہ۔
اقدام کلکتہ: یہ ایک روزانہ اخبار تھا جو مولانا محی الدین قصوری کی ملکیت میں تھا چونکہ قصوری خاندان کے تمام اکابر و اصاغر مولانا آزاد کے بہت ہی قریبی تھے اور آپ کے علم و فضل کے معتقد تھے اسی لئے مولانا محی الدین قصوری اپنے اخبار کا نگراں مولانا ابوالکلام آزاد کو بنایا تھا اور وہ اخبار مولانا کے ہی نگرانی میں چھپوایا جاتا تھا ۔
الجامعہ کلکتہ: یہ عربی کا پندرہ روزہ جریدہ تھا، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اسکے مدیر تھے لیکن اسکی پالیسی کی نگرانی مولانا ابوالکلام آزاد
کو حاصل تھی۔
(٤) وہ اخبار و رسائل جسکے مدیر مولانا آزاد تو تھے لیکن اسکی ملکیت کسی اور کو حاصل تھی۔
الف: وکیل امرت سر۔
ب: دار السلطنت کلکتہ۔
وکیل امرت سر: یہ اخبار شیخ غلام محمد کا تھا پہلے یہ ہفت روزہ نکلتا تھا لیکن جب سے مولانا آزاد اسکے مدیر بنے اس وقت سے ہفتے میں تین مرتبہ نکلنے لگا پھر یہ سہ روزہ ہو گیا۔
دار السلطنت کلکتہ: یہ رسالہ کلکتہ کے ایک تاجر مولوی عبد الطیف نے اپنے مرحوم والد مولوی عبد الباری کی یاد میں جاری کیا تھا اور مولانا آزاد اس اخبار کے باقاعدہ تنخواہ دار اڈیٹر تھے۔
(٥) وہ رسالے جو کسی اور کی ملکیت و ادارات میں نکلتے تھے اور مولانا آزاد اعزازی یا تنخواہ کی شرط پر نائب مدیر کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے تھے۔
الف: خدنگ نظر لکھنؤ۔
ب: الندوہ لکھنؤ۔
خدنگ نظر لکھنؤ: یہ ایک گلدستہ تھا جو منشی نوبت راے نظر کی ادارت میں نکلتا تھا اور وہی اسکے مالک بھی تھے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اس گلدستہ کے نائب مدیر بھی تھے، منشی صاحب نے اس گلدستہ میں ایک اعلان بھی چھپوایا تھا کہ اب کی بار سے مولانا آزاد دہلوی اس گلدستہ میں نائب مدیر کی حیثیت سے خدمت انجام دیں گے۔
الندوہ لکھنؤ: یہ ماہانہ ندوہ العلماء لکھنؤ کا ترجمان تھا اور ندوہ ہی اسکا مالک تھا، اسکے ابتدائی چند پرچے شاہ جہاں پور سے نکلے تھے پھر لکھنؤ سے نکلنے لگے تھے، مولانا ابوالکلام آزاد اس اخبار کے نائب مدیر تھے اور آپ کو اس اخبار میں نائب مدیر ہونے کی وجہ سے تنخواہ بھی دی جاتی تھی۔
بہر حال یہ مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات کا وسیع میدان تھا جس میں آپ نے مختلف حیثیتوں سے کام انجام دیا تھا۔
قارئین کرام! مولانا آزاد اپنے اس صحافتی سفر میں مختلف مرحلوں سے گزرے ہیں لیکن انکے قدم کسی مقام پر رکے نہیں، وہ اس سفر میں آگے بڑھتے رہے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ صحافت کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔
مولانا کا یہ سفر پستی سے بلندی کی طرف اور تقلید سے اجتہاد کی طرف رواں دواں رہا، اس سفر کا نقطۂ آغاز نیرنگ عالم اور المصباح تھا اور نقطۂ عروج الہلال اور البلاغ تھا۔
مولانا کی صحافت حق و صداقت، حسن و ادب سے آراستہ و پیراستہ تھی جس کی وجہ سے اس کے اثرات آج بھی قائم و دائم ہیں یہ دوسری بات ہے کہ جو لوگ صحافت کو محض پیشے کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں اور صحافت کو حق و صداقت کی آواز کے بجائے مالک کے اشارے اور کنایے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ مولانا آزاد کی صحافت سے نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی صحافت ان کو راس آسکتی ہے۔