اعتکاف مظہرعبودیت و بندگی

0

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی یوں بیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے’’ اورہم نے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہماالسلام کوتاکیدکی کہ میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے،اعتکاف کرنے والوں کیلئے اوررکوع کرنے والوں کیلئے خوب صاف ستھرا رکھیں‘‘( البقرہ:125)۔یہ اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالی کی رضاکیلئے اعتکاف کیاجاتا تھا۔حضوراکرمؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیاہے اوراس کی بہت زیادہ تاکیدفرمائی ہے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ بے شک حضورنبی کریمؐ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ یہاںتک کہ آپؐ خالق حقیقی سے جاملے۔پھرآپؐ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں(صحیح بخاری،صحیح مسلم)۔رسول اللہ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی(کنزالعمال)۔

 اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شب ِقدرکی تلاش وجستجوہے اوردرحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کوپانے کیلئے بہت مناسب ہے،کیونکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویاہوابھی ہوتب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتاہے ۔نیز اعتکاف میں چونکہ عبادت وریاضت اورذکروفکرکے علاوہ اورکوئی کام نہیں رہے گالہذا شب قدرکے قدردانوں کیلئے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔

رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلا خواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)۔رسول اللہ نے فرمایا جو شخص خالص لوجہ للہ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکر ۃالواعظین)۔سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیاہوگی۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشادفرمایاکہ جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیاتو گویاکہ اس نے دوحج اوردوعمرے ادا کئے ہوں(شعب الایمان)۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے معتکف(اعتکاف کرنے والے)کے بارے میں فرمایاکہ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں۔ اس شخص کی طرح جویہ تمام نیکیاں کرتاہو(سنن ابن ماجہ،مشکو ۃ)۔اس حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اورگناہوںمثلاغیبت، چغلی، بری بات کرنے،سننے اوردیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتاہے، البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتامثلا نمازِجنازہ کی ادائیگی،بیمارکی عیادت ومزاج پرسی اورماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ لیکن اگرچہ وہ ان نیکیوں کوانجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالی اسے یہ نیکیاں کئے بغیرہی ان تمام کااجرو ثواب عطافرمائے گا،کیونکہ معتکف اللہ کے پیارے رسولؐ کی سنت مبارکہ ادا کررہاہے جودرحقیقت اللہ تعالی کی ہی اطاعت وفرمانبرداری ہے۔
اعتکاف کی غرض وغایت،شب قدرکی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمؐ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا،پھردرمیانی عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایاپھرخیمہ سے سراقدس نکال کرارشادفرمایاکہ میں نے پہلے عشرے میںشب قدرکی تلاش میں اعتکاف کیاتھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیاپھرمیرے پاس ایک فرشتہ آیااورمجھ سے کہاکہ شب قدرآخری عشرے میں ہے،پس جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرتاتھاتو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہئے(صحیح بخاری،صحیح مسلم )۔مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شب ِقدرکی تلاش وجستجوہے اوردرحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کوپانے کیلئے بہت مناسب ہے،کیونکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویاہوابھی ہوتب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتاہے ۔نیز اعتکاف میں چونکہ عبادت وریاضت اورذکروفکرکے علاوہ اورکوئی کام نہیں رہے گالہذا شب قدرکے قدردانوں کیلئے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمؐ کامعمول بھی چونکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کارہاہے،اس لئے علما کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔1۔اعتکاف ِ واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اتنے دن کااعتکاف کروں گااوراس کاوہ کام ہوگیا تویہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائیگی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کیلئے روزہ بھی شرط ہے،بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔2۔اعتکاف سنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیاجاتاہے یعنی بیسویں رمضان کوسورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف)میں داخل ہو جائے اورتیسویں رمضان کو سورج غروب ہو جانے کے بعدیا انتیسویں(29ویں)رمضان کو عید الفطر کاچاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف)سے نکلے۔واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگرکسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے،مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔3۔اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجدمیں داخل ہو تواعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیرمسجدمیں رہے گا،اعتکاف کاثواب پائے گا۔یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتاہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے،جب مسجد سے باہر نکلے گاتواعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔
مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمنا ًکھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لئے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اعتکاف کے لئے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس)پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے ۔ اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔کسی شرعی عذرکے بغیرمسجدسے باہرنکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبرازکیلئے اورنمازِ جمعہ کیلئے جاناشرعی عذرہے۔دعاہے کہ اللہ تعالی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
uuu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS