کلیم الحفیظ
ہندوستان پراچین ملک ہے۔اسلام کی آمد سے پہلے یہاں برہمنی نظام قائم تھا جس کے تحت چھوٹے چھوٹے حصوں اور علاقوں میں منو کے قانون کے مطابق برہمنوں کا راج تھا۔منو اسمرتی کے مطابق انسان کی تخلیق خدا کے مختلف اعضاء سے ہوئی ہے۔خدا کے دماغ سے برہمن پیدا ہوئے،اس لیے علم حاصل کرنے اور حکومت کرنے کا ان کو ہی اختیار ہے۔ اس کے بازوئوں سے چھتری پیدا ہوئے، اس لیے ملک کا دفاع کرنے اور قانون نافذ کرنے کے اختیار ات ان کے پاس ہیں،جو لوگ خدا کے پیٹ سے پیدا ہوئے وہ ویشیہ کہلائے اور تمام تجارتی سرگرمیاں ان کے حصے میں چلی گئیں۔ان کے علاوہ باقی لوگ خدا کے پیروں سے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ان کا دھرم اوپر کے تمام طبقوںکے لوگوں کی خدمت کرنا ہے،اس طبقے میں شامل لوگوں کو شودرکہا جاتا تھا۔انھیںآج ہم SC,STکے خوب صورت نام سے جانتے ہیں۔مجھے اس عقیدے اور ہندو دھرم شاستروں پر کوئی بات نہیں کرنا ہے۔یہ ان کے دھرم، عقیدے اور آستھا کا سوال ہے،اس لیے یہ میرا موضوع نہیں ہے لیکن اس عقیدے کے انجام کے طور پر ہندوستان میں چھوت چھات،بھید بھائو اور اونچ نیچ کی مضبوط بنیادوں پر سماج قائم تھا،جس کااندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہوگا کہ2020میں جب کہ ہندوستان کو آزادہوئے چوہتر سال گزرچکے ہیں۔ ایک دلت فوجی کو اپنی شادی میں گھوڑے پر بیٹھنے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑتی ہے۔آپ اندازہ لگایئے اکیسویں صدی کا ہندوستان، ڈیجیٹل انڈیا، جو ’وشو گرو ‘بننے کے خواب دیکھ رہا ہے،اسی ہندوستان کے اس صوبے میں جہاں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کا نعرہ لگانے والوں کی حکومت ہے وہاں ایک ایسے نوجوان کو جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر سرحدوں کی حفاظت کررہا ہے،اس کو اپنی خوشی کی حفاظت کے لیے پولیس کی مدد کی ضرورت ہے تو آج سے چودہ سو سال قبل کے ہندوستان میں اس طبقے کی کس قدر بدترین صورت حال رہی ہوگی۔ آج ہم بابا بھیم رائو امبیڈ کر کا جنم دن منا رہے ہیں، ان کی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہاں کے منووادیوں نے یہاں کے دلتوں اور پسماندہ طبقوں پر کتنے مظالم ڈھائے ہیں۔دراصل جب کسی انسانی رویہ کو مذہب کی سند مل جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔جب جہنم سے نجات اور موکش پراپتی کے لیے کسی انسانی گروہ کو یہ سمجھا دیا جاتا ہے کہ تمہیں یہ ظلم سہنے ہی پڑیں گے تو پھر وہ ظلم سہنا بھی عبادت بن جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک خاص دھرم کے ساتھ ہی ہو بلکہ بہت سے آسمانی دین بھی اس کا شکار ہوئے ہیں،ایک خاص گروہ انسانی نے انسانوں پر حکومت کرنے کے لیے اس طرح کے خود ساختہ قوانین ہمیشہ اور ہرجگہ بنائے ہیں۔
ہندوستان میں اگر دلتوں کو سمان اور اقتدار میں حصے داری مطلوب ہے تو انھیں ماضی میں مسلم بھائیوں کی طرف سے ان کے لیے کیے گئے کاموں اور خیرخواہی کو یاد رکھنا ہوگا، انھیں اس سازش کو سمجھنا ہوگا جس کا شکار ہوکر وہ مسلم مخالف سرگرمیاں انجام دینے لگتے ہیں۔ ۔۔۔مسلمانوں کو بھی یادرکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں صرف دلت طبقات ہی ان پراعتماد کرسکتے ہیں۔لیکن اس کے لیے انھیں خواجہ اجمیریؒ کے اسلام کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد یہاں انسانی مساوات کے تصورنے پہلی بار جنم لیا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ محبت،انسانیت اور بھائی چارے کا اسلامی اور آفاقی پیغام لے کر تشریف لائے۔انھوں نے ان انسانوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا جن کے ساتھ ان کے اپنے ہم مذہب جانوروں سے بد تر سلوک کررہے تھے۔ اسلام نے یہاں انسانی مساوات کا درس دیا،اس نے اعلان کیا کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، سب بھائی بھائی ہیں، اس نے کہا کہ کسی گورے کو کالے پر اور عربی کو غیر عربی پر کوئی بڑائی حاصل نہیں۔یہاں کے مظلوموں نے جب یہ آواز سنی اور خواجہؒ کی صورت میں اس کا پریکٹیکل دیکھا تو اسلام کے سامنے اپنے سر خم کردیے۔قبول اسلام کی آندھی نے ہندو دھرم میں ریفارمر پیدا کیے۔لیکن یہ ریفارمر اپنے مذہب کی بنیادوں میں لگی دیمک کو دور نہ کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی دلتوں کے ساتھ بھیدبھائو کے واقعات ہردن ہوتے ہیں۔
اسلام نے یہاں کے دلتوں،مظلوموں اور خواتین پر بڑے احسانات کیے۔ہندوستان میں بیوہ عورت کو جینے کا حق اسلام کی وجہ سے ہی ملا،خواتین کو باپ کی جائیداد میں حق اسلام کی ہی دین ہے،یہاں چھوت چھات اور اونچ نیچ کا تصور اسلام نے ختم کیا۔آج جو دلت سماج کو عزت کا مقام حاصل ہے وہ اسلام ہی کی دین ہے، اگر اسلام کی روشنی اس ملک میں نہ آئی ہوتی تو انھیں کسی قسم کی مراعات حاصل نہ ہوتیں۔اس لیے دلتوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان کے مسلمان ہی ان کے خیر خواہ ہیں۔پوری ہندوستانی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں کسی دلت پر کسی مسلمان نے دلت ہونے کی وجہ سے ظلم کیا ہو۔ان کے ساتھ عدل و انصاف میں بھیدبھائو کیا ہو۔ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا ہو۔بلکہ بابا صاحب بھیم رائو امبیڈ کر کا سب سے زیادہ ساتھ مسلمانوں نے دیا۔ منو ودای فکر کے لوگ تو ان کو دستور ساز کمیٹی میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے مسلم لیگ نے انہیں پارلیمنٹ میں پہنچایا۔ہمارے دلت بھائیوں اور امبیڈکر وادیوں کو چوب دار تالاب ستیہ گرہ کے سلسلے میں مسلمانوں کے سلوک کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔اس تالاب پر کتے، گدھے، گھوڑے پانی پی سکتے تھے مگر اچھوتوں کو سماجی پابندی کی وجہ سے پانی لینا منع تھا۔ اس کے خلاف ستیہ گرہ کیاگیا تھا۔ ہندوؤں، برہمنوں اور گوجروں نے بھیم رائو امبیڈکرکو اجلاس کے لیے جگہ دینے سے انکار کردیاتھا مگر مہاڈ قصبہ میں ایک مسلمان فتح محمد خان نے آگے بڑھ کر امبیڈکرسے کہاکہ آپ میرے کھیت میں اجلاس کرسکتے ہیں۔بھیم رائو امبیڈکر کے بعد بھی تمام دلت لیڈرس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے ان کا ساتھ کس نے دیا؟کس نے جیوتی باپھولے کو تعلیم نسواں کے لیے اپنا گھر دیا، مومن پورہ مہاراشٹر کا پھلے واڑہ عثمان شیخ کی حویلی ہے جو انھوں نے اس وقت جیوتی با پھولے کو وقف کردی تھی جب کسی غیر مسلم نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا،بلکہ شدت سے مخالفت کی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ وہ فاطمہ شیخ تھیں جنھوں نے ساوتری بائی پھولے کا ہر قدم پر ساتھ دیا۔کس نے کانشی رام جی کو اقتدار تک پہنچایا،کس نے مایا وتی جی کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا۔آج بھی پورے ہندوستان میں اگر دلت طبقہ کا کوئی ساتھ دے رہا ہے تو وہ صرف مسلمان ہیں۔آج بھی ادت راج ہوں یا چندر شیکھر ان کی آواز میں آواز ملانے والے مسلمان ہی ہیں۔
ہندوستان میں اگر دلتوں کو سمان اور اقتدار میں حصے داری مطلوب ہے تو انھیں ماضی میں مسلم بھائیوں کی طرف سے ان کے لیے کیے گئے کاموں اور خیرخواہی کو یاد رکھنا ہوگا،انھیں اس سازش کو سمجھنا ہوگا جس کا شکار ہوکر وہ مسلم مخالف سرگرمیاں انجام دینے لگتے ہیں،انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ منواسمرتی میں یہ بات آج بھی لکھی ہوئی ہے کہ دلت اور شودر ایشور کے پائوں سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا دھرم تینوں ورنوں کی سیوا کرنا ہے۔مسلمانوں کو بھی یادرکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں صرف دلت طبقات ہی ان پراعتماد کرسکتے ہیں۔لیکن اس کے لیے انھیں خواجہ اجمیریؒ کے اسلام کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر ہندوستان کے مظلوم، پسماندہ اور دلت طبقات کو گلے لگائیںاور انھیں یہ احساس کرائیںکہ منو کے نظام میں بھلے ہی تمہارے ساتھ امتیازی سلوک کے قوانین ہوں مگر اسلام کے نظام مساوات میں تم ہمارے بھائی ہو۔
نور توحید نور کتاب مبیں
نور سنت یہاں پر ہمی لائے تھے
مان احساں ہمارا ہمارے وطن
ہم سے پہلے یہاں تھا اندھیرا بہت
[email protected]