استنبول کینال کی تجویز پر بھونچال

0

صبیح احمد

سمندری راستوں کو ہمیشہ ہی اہمیت حاصل رہی ہے۔ دنیا کے نئے خطوں اور ملکوں کی کھوج انہی سمندری راستوں کی مرہون منت ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور براعظموں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور باہمی تجارت و کاروبار کو آسان اور کفایتی بنانے میں ان سمندری راستوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں سمندر ی علاقوں اور سمندری راستوں پر قبضہ کے لیے دنیا کے ممالک کے درمیان زور آزمائی ہوتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی بحیرہ جنوبی چین کے لیے آج امریکہ اور چین جیسی دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان ایک سرد جنگ کی سی کیفیت ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ جس کا سب سے زیادہ سمندری راستوں پر قبضہ ہوگا، دنیا اسی کے آگے سرنگوں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ تجارتی اعتبار سے اہم سمندروں کے درمیان دوری کم کرنے کے لیے خشکی کے علاقوں میں نہریں کھود کر سمندروں کو آپس میں جوڑنے اور تجارتی راستوں کی دوریوں کو ہزاروں کلومیٹر تک کم کرنے کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس کی بہترین مثالیں سوئز نہر، پنامہ نہر اور کئی دیگر آبنائے ہیں جو بین الاقوامی تجارت کے اہم راستے ہیں اور جن سے اربوں ٹن کارگو کی تجارت ہوتی ہے۔ یہ نہریں اور آبنائے جن ممالک سے ہو کر گزرتی ہیں، ان ممالک کو سالانہ کروڑوں ڈالر کی آمدنی بھی ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک نئے منصوبہ کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ان کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔

استنبول کینال منصوبہ کے اعلان کے بعد سے ہی حزب اختلاف سمیت ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اب مخالفت کرنے والوں میں بحریہ کے سابق ایڈمرلز بھی شامل ہوگئے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ’استنبول کینال‘ کے منصوبے سے ’مونٹرے کنونشن‘ کے عالمی معاہدہ پر ازسرنو بحث کا آغاز ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں بحیرۂ مرمرہ پر ترکی کی خودمختاری کم ہوجائے گی۔

آخر صدر اردگان کا مجوزہ منصوبہ ہے کیا؟ دراصل صدر اردگان نے پہلی بار اپریل 2011 میں ’استنبول کینال‘ منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور اسے ’بڑے بجٹ‘ کا ’کریزی منصوبہ‘ قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا موازنہ پنامہ یا سوئز کینال سے بھی نہیں کیا جا سکتا یعنی یہ ان دونوں منصوبوں سے بہتر اور بڑا منصوبہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بحری راستے کی گہرائی 25 میٹر ہو گی اور اس سے ہر روز تقریباً 160 بحری جہاز گزر سکیں گے۔ نئی نہر آبنائے باسفورس کے مغرب میں واقع ہو گی اور اس کا بہاؤ استنبول کے شمال سے جنوب کی جانب ہو گا اور یہ 45 کلومیٹر طویل ہو گی اور اس نئی نہر سے آبنائے باسفورس پر دبائو کم ہوجائے گا۔اسی موسم گرما میں اس منصوبہ کے سنگ بنیاد کے لیے ٹینڈر طلب کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت استنبول شہر کے درمیان سے 45 کلو میٹر طویل ایک مصنوعی گزرگاہ نکالی جائے گی۔ ترکی کا مؤقف ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی موجود آبنائے باسفورس میں بحری ٹریفک کا رش ہونے کے باعث ’استنبول کینال‘ متبادل بحری راستے کے طور پر کام کرے گی۔ آبنائے باسفورس کا شمار دنیا کے مصروف ترین آبی راستوں میں ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ بحری جہازوں کو گزرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ نہر سوئز میں بحری جہاز پھنس جانے کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ آبنائے باسفورس جیسی مصروف بحری گزر گاہ کا متبادل ہونا ضروری ہے۔ استنبول کینال منصوبہ کے حق میں یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ اس نہر سے گزرنے والے جہازوں سے فیس کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی بھی متوقع ہے۔ سمندری راستوں سے ہونے والے بین الاقوامی کاروبار میں روز بروز اضافہ کے پیش نظر اس نئے راستے کا جواز بہت حد تک قابل فہم ہے۔ اس سے قبل بھی دبائو کو کم کرنے کے لیے کئی نہریں کھودی جا چکی ہیں اور ان سے بین الاقوامی تجارت کو کافی عروج بھی حاصل ہوا۔ اس کی بہترین مثال سوئز نہر اور پنامہ نہر ہے۔ اس کے علاوہ آبنائے ہرمز اور آبنائے ملاکا بھی انتہائی کار آمد راستے ہیں۔
مشرقی اور مغربی دنیا کے درمیان اہم سمندری گزرگاہ نہر سوئز مصر میں واقع ہے اور یہاں سے باقاعدہ تجارت کا آغاز 1869 میں ہوا تھا۔ یہ 193 کلو میٹر لمبی ہے اور یہ بحیرۂ روم کو بحیر احمر سے جوڑتی ہے۔ سوئز کینال کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں یہاں سے 19311 بحری جہازوں کی آمدورفت ہوئی تھی جس میں 121 کروڑ ٹن کارگو کی تجارت ہوئی تھی۔ یہ عالمی تجارت کا تقریباً 12 فیصد بنتا ہے اور یہ عالمی معیشت کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ جن اشیا کی تجارت اس نہر کے ذریعہ کی جاتی ہے ان میں نمایاں تیل ہے۔ یہاں سے تقریباً 20 لاکھ بیرل خام تیل یومیہ گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 8 فیصد ایل این جی کی تجارت بھی نہر سوئز کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ 1914 میں نہر پنامہ میں آمد و رفت کے آغاز سے عالمی تجارت میں ایک انقلاب آگیا۔ اس نہر نے دنیا کے 2 سب سے بڑے سمندروں یعنی بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے مابین مختصر ترین راستہ تشکیل دیا ہے۔ یہاں سے عالمی تجارت کا 6 فیصد مال گزرتا ہے اور ہر سال یہاں سے 13 ہزار مال بردار بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یہاں سے تقریباً 144 سمندری راستے نکلتے ہیں جو 160 ممالک کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں اور ایک ہزار 700 بندرگاہوں کے درمیان سامان کی تجارت ہوتی ہے۔ یہ امریکہ سے آنے والے بحری جہازوں کے لیے ایک انتہائی اہم گزرگاہ ہے جو انہیں مشرق سے مغرب آنے والی ٹریفک سے بچ کر آمد ورفت کی ایک مختلف گزرگاہ فراہم کرتی ہے۔
آبنائے ہرمزبلاشبہ دنیا کا ایک سب سے اسٹرٹیجک سمندری راستہ ہے جو مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والوں کو ایشیا پیسیفک، یوروپ اور شمالی امریکہ کی کلیدی منڈیوں سے جوڑتا ہے۔ صرف 160 کلومیٹر لمبی اور انتہائی تنگ گزرگاہ ہرمز کو نہر سوئز اور پنامہ کے برعکس کسی ملک کی جانب سے کنٹرول نہیں کیا جاتا۔ یہ خلیج فارس کو خلیج عمان سے جوڑتی ہے جہاں ایران، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک واقع ہیں اور بحیرہ عرب بھی ہے۔ آبنائے ہرمز کے انتہائی تنگ نقطے پر یہ نہر عمان کو ایران سے صرف 33 کلو میٹر کے فاصلے سے الگ کرتی ہے۔ اس میں 2 سمندری گزرگاہیں ہیں جو صرف 3 کلومیٹر لمبی ہیں۔ عالمی تیل کی تجارت کا پانچواں حصہ یہاں سے گزرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر روز 2 کروڑ 10 لاکھ بیرل خام تیل اس بحری گزرگاہ سے گزرتا ہے۔ یہ دنیا بھر کی پٹرولیم مصنوعات کا تقریباً 21 فیصد ہے۔ آبنائے ہرمز سے گزرنے والا زیادہ تر سامان (تیل) سعودی عرب سے آتا ہے اور اس کی نمایاں منزلیں چین، ہندوستان، جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور کی ایشیائی منڈیاں ہوتی ہیں۔ آبنائے ملاکا بحر ہند اور بحر الکاہل کو جوڑنے والی تقریباً9309 کلومیٹر لمبی گزرگاہ ہے۔ یہاں سے ہر سال 84 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں جو عالمی تجارت کا 25 فیصد بنتا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے سامان کا دو تہائی حصہ خلیج فارس کے خام تیل پر مشتمل ہے۔ یہ تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ بیرل ہوتا ہے۔
بہرحال صدر اردگان کے اس منصوبے پر ملک میں ان دنوں ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ استنبول کینال منصوبہ کے اعلان کے بعد سے ہی حزب اختلاف سمیت ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اب مخالفت کرنے والوں میں بحریہ کے سابق ایڈمرلز بھی شامل ہوگئے ہیں۔انہیں خدشہ ہے کہ ’استنبول کینال‘ کے منصوبے سے ’مونٹرے کنونشن‘ کے عالمی معاہدہ پر از سر نو بحث کا آغاز ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں بحیرۂ مرمرہ پر ترکی کی خودمختاری کم ہوجائے گی۔ 1936 میں ہونے والا ’مونٹرے معاہدہ‘ بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس اور آبنائے دانیال میں بحری آمد ورفت کی ضابطہ بندی کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت ترکی کو ان گزرگاہوں پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس منصوبہ پر تنقید کرنے والے ترک بحریہ کے 10 ایڈمرلز کو گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ترکی میں فوج 1960، 1980 اور 2016 میں بغاوت کی کوشش کر چکی ہے اور وہاں سیاست میں فوج کی مداخلت ایک مستقل سیاسی معاملہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اردگان نے سابق ایڈمرلز کے خط کو ’سیاسی بغاوت‘ کا اشارہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایک ایسا ملک جو فوجی بغاوت کی تاریخ رکھتا ہو، وہاں رات کے اندھیرے میں 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز کا ایسا اقدام قابل قبول نہیں اور اسے آزادی اظہار نہیں کہا جاسکتا۔ اس معاملہ پر ترک سیاست میں بھونچال سا آ گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اردگان اپنے اس پروجیکٹ کو کس طرح پورا کر پاتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS