یونیفارم سول کوڈ ایک ایسا مسئلہ ہے ، جوانتخابات کے وقت موضوع بحث بن ہی جاتا ہے ۔ اگر سرکارکی طرف سے کوئی نہ بھی بولے تو میڈیا کسی نہ کسی بہانے لیڈران یا وزراسے اس بابت کچھ نہ کچھ کہلواہی دیتا ہے ۔سوال کچھ ایساکیا جاتاہے کہ سرکارکی منشاظاہر ہوجائے اور لوگوں میں اس تعلق سے کوئی پیغام چلا جائے ۔ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ سرکار خاموش ہے ۔تازہ معاملہ مرکزی وزیرقانون کرن رجیجو کا ہے ،جنہوں نے ’ آجتک‘ نیوزچینل سے بات چیت کے دورا ن یونیفارم سول کوڈ کولانے کا اشارہ دیا۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 44کاحوالہ دیتے ہوئے صاف صاف کہا کہ ہماری سرکار اس کیلئے ضروری قدم اٹھائے گی۔ان کاکہناتھاکہ آرٹیکل 44میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ سرکارکو یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری کرنی چاہئے ۔ اس کے تحت جو بھی کرناہے، ہم کریں گے اورہم وہی کریں گے جو ملک کیلئے ٹھیک ہے ۔یہ کام کب ہوگا ،اس بابت ان کا کہناتھاکہ میں ابھی اس کا اعلان نہیں کرسکتا ، لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ہماری سرکارکی منشاکیا ہے ؟ اورملک کے عوام کیا چاہتے ہیں ؟ایسے میں جو کچھ بھی کرنے کی ضرورت ہے ، صحیح وقت پر کیا جائے گا۔البتہ انہوں نے یہ کہا کہ ایسے امور میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔اس سے قبل مرکزی وزیرسے پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے 2 باتیں کہی تھیں ، ایک اس کے نفاذ کاابھی کوئی منصوبہ نہیں ہے اورگزشتہ سال نومبر جو 22واں لاکمیشن تشکیل دیاگیا تھا ، وہی یونیفارم سول کوڈ کا جائزہ لے گا، جبکہ 21ویں لاکمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ مطلوب ہے۔ حال ہی میں جب سپریم کورٹ میں سرکار نے کہا تھا کہ وہ یونیفارم سول کوڈ کے حق میں ہے اور یہ کام پارلیمنٹ کا ہے نہ کہ کورٹ کا۔سپریم کورٹ بھی بہت پہلے کہہ چکا ہے کہ سرکار کو اس کے نفاذ کیلئے کام کرنا چاہئے۔ گزشتہ دنوںجب یونیفارم سول کوڈ کا ڈرافٹ تیارکرنے کیلئے اتراکھنڈ سرکار کی طرف سے تشکیل شدہ کمیٹی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو کورٹ نے عرضی مستردکردی ۔
یونیفارم سول کوڈ کامقصد شادی، طلاق، گود لینے اوروراثت جیسے پرسنل امور میں یکساں قوانین کا اطلاق کرنا ہے۔ آرٹیکل 44 میں مذکور ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں میں یونیفارم سول کوڈ کی وکالت تو کی گئی ہے ،لیکن آزادی کے بعد سے، حکومتوں نے مختلف مذاہب پر مبنی سول کوڈ کی اجازت دی اوراسی کو جاری رکھا۔تاہم بی جے پی کے بنیادی ایجنڈے میں بہت پہلے سے 3ایشوز شامل ہیں ، ایک اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر دوسرا جموں وکشمیر میں دفعہ 370 کا خاتمہ اورتیسرایونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہے ۔ 2وعدے پورے ہوگئے ۔تیسرے پر کام کرناباقی ہے ،بلکہ کام چل رہا ہے ، کیونکہ بی جے پی کی حکومت والی 3 ریاستوں نے اس سلسلہ میں پہل کردی ۔ سب سے پہلے اتراکھنڈ کی سرکارنے یونیفارم سول کوڈ کے ماڈل قانون کا ڈرافٹ تیار کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا دیسائی کی سربراہی میںسہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ، دیگر ارکان میں ریٹائرڈ جج پرمود کوہلی، ریاست کے سابق چیف سکریٹری شتروگھن سنگھ، دون یونیورسٹی کی وائس چانسلر سریکھا ڈنگوال اور سماجی کارکن منو گوڑ شامل ہیں۔گجرات کی بی جے پی سرکارنے بھی یونیفارم سول کوڈ کیلئے ایک کمیٹی بنانے کی بات کہی ، کابینہ نے اس کی منظوری بھی دیدی ، لیکن ابھی تک وہ تشکیل نہیں دی گئی ۔ مدھیہ پردیش کی بی جے پی سرکار نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے ، لیکن نہ تو کابینہ نے اس کی منظوری دی اورنہ کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ ایساکہا جارہا ہے کہ گواجہاں بی جے پی کی سرکارہے ، وہاںنافذ یونیفارم سول کوڈ کا ماڈل پہلے سے پارٹی اوراس کی مرکزی وریاستی سرکاروںکے سامنے ہے ،اب سبھی کو اتراکھنڈ کی کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار ہے ، جس کے بارے میںذرائع کا کہناہے کہ اگلے 2ماہ میں آنے کا امکان ہے ۔اس رپورٹ کی بنیادپر نہ صرف اتراکھنڈ میں ماڈل قانون تیار کیاجائے گا ، بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ کچھ ردوبدل کے ساتھ بی جے پی کی حکومت والی دوسری ریاستوں اوربعد میں پورے ملک میں نافذ کردیا جائے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ جو فیصلہ یا قانون بی جے پی کی پارٹی پالیسی کے مطابق ہوتا ہے ،اسے یکے بعد دیگرے اس کی حکومت والی تمام ریاستوں میں نافذ کیا جاتا ہے ، جیساکہ ہم گئو کشی اورتبدیلی مذہب کے نام پر پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں قانون سازی کو دیکھ چکے ہیں ۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ اگلے پارلیمانی انتخابات سے پہلے مرکزی سرکاریونیفارم سول کوڈ پر آگے بڑھے گی اوراسی کا اشارہ مرکزی وزیرقانون نے دیا ۔
[email protected]
یونیفارم سول کوڈ کا ایشو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS