عتیق جیسے لوگ سیاست اور سرکاروں کی پرورش میں پروان چڑھتے ہیں؟

0

شاہد زبیری

مافیا کہے جانے والے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کے پولیس کسٹڈی میں قتل کئے جانے پر ایک مرتبہ پھر پولیس اور سرکار سوالوں کے گھیرے میں ہے اور عدلیہ کے اختیارات پر بحث جاری ہے جو ایک جمہوری نظام اور صحت مند معاشرہ کیلئے ضروری بھی ہے۔اس ساری بحث میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ملزم یا مجرم کو سزا دینے کا اختیار ہمارے قانون اور ہماری عدلیہ کو ہے یا کسی سرکار اور پولیس کو ؟
بڑا سوال یہ ہے کہ عتیق جیسے لوگ سماج پیدا کرتا ہے یا ہمارا سسٹم اور سرکاریں؟ہماری سیاسی جماعتیںجب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو اس مسئلہ پر ان کا مؤقف کچھ اور ہوتا ہے اور زبان کچھ اور ہوتی، سرکار میں ہوتی ہیں تو اپنی بات کو صحیح ٹھہرانے اور مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے تمام حربے استعمال کرتی ہیں اور طاقت کے استعمال سے بھی ان کو گریز نہیں ہوتا عتیق اور اس کے بھائی کے قتل پربھی یہی نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے، حکمراں جماعت ا ور اپوزیشن جماعتیں عتیق کے قتل پرسیاسی روٹیاں سینک رہی ہیں۔ میڈیا کا بڑا حصہ سرکار کے گن گان کررہا ہے اور سرکار بھی بظاہر عتیق کے پولیس کسٹڈی میں قتل کئے جا نے سے پلّہ جھاڑ رہی ہے اور کہنے کو اس نے ضابطہ پورا کرنے کیلئے جانچ بٹھا دی ہے ۔افسوس یہ کہ حکمراں جماعت عتیق کو مسلمانوں کا ہیرو ثابت کرنے پر تلی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عتیق کے ظلم اور زیادتیوں کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوئے ہیں اس کے ہاتھوں سب سے پہلا قتل بھی پریاگ راج کے مافیا جو ایک کونسلر بھی تھا چاند بابا کا ہوا تھا۔ ایک غیر جانبدار میڈیا رپورٹ کے مطابق ممبر اسمبلی راجیو پال اور قتل کے گواہ امیش پال کے قتل کے علاوہ اس کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کا کوئی تیسرا فرد شاید ہی اس کی بربریت کا شکار نہیں ہوا جتنے مسلمان ۔
مافیا ڈان کہے جانے والے عتیق کو گر چہ عدالت نے عمر قید کی سزا سنادی تھی اس کے بھائی پر بھی سنگین الزامات تھے ،عتیق بہت پہلے اپنی جان کو خطرہ بتا چکا تھا اور اس نے اپنے وکیل یا کسی معتمد کو تین مہر بند لفافے سونپے تھے اور کہا تھا کہ اگر اس کو قتل کردیا جائے تو یہ لفافے تین الگ الگ شخصیات تک ارسال کر دئے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک لفافہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کے نام بھی بتا یا جا تا ہے۔ خبریں تو یہ بھی فضا میں گردش کررہی ہیں کہ عتیق نے اپنے کسی معتمد سے یہ بھی کہا تھا کہ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے جیل سے نکال کر ا س کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔بالآخر عتیق کا خدشہ سچ ثابت ہوا ،عتیق اور اس کے بھائی کو پولیس کسٹڈی میں اس وقت گولیوں سے بھون ڈالا گیا جب پولیس دونوں کو میڈیکل کیلئے لے گئی تھی۔ اس بھیانک واردات کو انجام دینے والے تینوں نو عمر قاتل میڈیا کے بھیس میں آئے تھے جن کے پاس میڈیا آئی ڈی اور کیمرہ بھی تھا اور تینوں نے واردات میں بیش قیمتی پسٹل استعمال کئے تھے اور قتل کے بعد جے شری رام کے نعرے بھی لگائے تھے شاید یہ نعرہ کا ہی کمال تھا کہ ہماری بہادر پولیس نے گولی تو دور قاتلوں کے سر پر ڈنڈا تک نہیں مارا اور ان کی جان بخش دی اورتینوں نے خود کو پولیس کے حوالہ کردیا ۔ایک بات کا اور ذکر کرتے چلیں ابھی تک تو پولیس کی وردی پہن کر ڈاکو لٹیرے ڈاکے ڈالتے تھے اب میڈیا کا چولا پہن کر قلم کی جگہ ہتھیار چلانے کا راستہ بھی عتیق اور اشرف کے قتل نے کھول دیا ہے۔ کون جا نے جس کے ہاتھ میں میڈیاآئی ڈی اور کیمرہ ہے کب میڈیا آ ئی ڈی کی جگہ ہاتھ میں پسٹل آجائے اور کس کی جان لے لی جائے۔ گرچہ اس واردات کی جانچ بٹھا دی گئی ہے لیکن یہ جانچ عتیق اور اشرف کے قتل کے پیچھے کی سازش کا پردہ فاش کر پائے گی یہ اہم سوال ہے؟ کہا جارہاہے کہ تینوں قاتلوں میں ایک قاتل کی سیلفی بجرنگ دل کے ایک لیڈر کے ساتھ ہے ۔بجرنگ دل نے ان قاتلوں سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا لیکن ہندو مہا سبھا حمایت میں آگئی ۔خبر یہ بھی ہے کہ ان تینوںٹرینڈ شوٹروں کو موقع پر موجود رہ کر دو ہینڈلر کمان بھی دے رہے تھے ان میں ایک ہینڈلر مقامی تھا۔ یقینا یہ سب جانچ کا حصہ رہے گا۔ جانچ کتنی ایمانداری اور غیر جانبداری سے کی جائے گی یہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ حیرت ہے کہ پو لیس نے عدالت سے تینوں قاتلوں کا پولیس ریمانڈنہیں مانگا۔ عدالت نے تینوں کو جوڈیشیل ریمانڈ پر بھیج دیا ۔ان تینوں نے واردات کے بعد قتل کا جو مقصد بتا یا وہ حلق کے نیچے نہیں اترتا۔ اگر مان لیں کہ وہ تینوں عتیق کو مار کر عتیق کی طرح مافیا ڈان بننا چاہتے ہیں،عتیق نے بھی محض 17سال کی عمر بد نامِ زمانہ گینگسٹر چاند بابا کومار کر اس کی جگہ لی تھی ۔ غور کر نے کی با ت یہ ہے کہ عمر قید کا سزا یافتہ ڈھلتی عمر کا مافیا عتیق سماج کیلئے زیادہ خطر ناک تھا یا گرم خون والے یہ تین نئے مافیا سماج کیلئے زیادہ خطرناک ہوںگے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ملک کے جوڈیشری سسٹم کے وجود اور اس کی بقا پر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ آئین کا حلف لے کر آئینی منصب پر بیٹھنے والے وزیر اعلیٰ جب اسمبلی اجلاس میں یہ فرمان جا ری کرتے ہیں کہ مافیا کو مٹی میں ملادیں گے تو پھر عدلیہ کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے، لیکن برا ہو اس سیاست اور سرکاروں کا جومافیا اور غنڈوں کی پرورش بھی کرتی ہیں اور ان پر دھرم ،مذہب اورذات کا ٹیگ بھی لگا دیتی ہیں ،اس سے کسی سیاسی جماعت یا کسی سرکار کا دامن پاک نہیں ہے۔تانگہ چلانے والا 17سال کے عتیق کو آخر کس نے مافیا بنا یااور کیسے مافیا سے لیڈر بننے والا عتیق 45سال کی سیاسی زندگی میں 5مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوا اور ایک مرتبہ پارلیمنٹ کی سیڑھیاں بھی چڑھ گیا اور قانون توڑنے والا قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر قانون کا منھ چڑھا تا رہا۔ ایک عتیق ہی کیا ملک بھر میں ہزاروں مافیا سیاست اور سرکاروں کی سرپرستی میں پرورش پا رہے ہیں۔ ایم پی اور ایم ایل اے کا چو لا پہنے ہوئے ہیں جن پر سنگین جرائم کے ارتکاب کے الزامات ہیں، ضمانتوں پر جیل سے باہر ہیں اور قانون ساز اداروں پر بھی قبضہ کئے ہوئے۔ پولیس کی کمزورچارج شیٹ اور سرکاروں کی پالیسیاں ان کی ڈھال بنی رہتی ہیں۔ ایسے مافیا ہر پارٹی میں ہیں جن کے ذریعہ پیسہ بھی وصولا جاتا ہے اور ووٹ بھی بٹورے جا تے ہیں جس پارٹی کی سرکار ہوتی ہے وہ مخالف پارٹی کے مافیا کو اپنے میں ملا لیتی ہے۔ جونہیں مانتا اس کو مٹی میں ملا دیا جا تا ہے یا اسے مار دیا جا تا ہے عتیق جو پہلے ہی عمر قید کا سزا یافتہ مجرم تھا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ماضی میں مایا وتی کی سرکار نے ایک مافیا کے گھر کے تالاب میں انسانی ڈھانچوں کے ملنے کا سنسنی خیز انکشاف تک کر ڈالا تھا لیکن وہ مافیا آج بھی راجہ بنا بیٹھا ہے اس کا بال بھی بانکا نہیں ہو ا۔ آخر آج وہ کس کی سرپرستی میں ہے ۔کانگریس کی یوپی سرکارکا وزیر ہری شنکر تیواری بی جے پی کی کلیان سنگھ سرکار میں بھی وزیر تھا جو ایک مافیا تھا آج بھی ایسے درجنوں مافیا ہیں جن کو سیاسی جماعتوں اور سرکار کی سر پرستی حاصل ہے ۔ عتیق جیسے مافیا کا تعلق بھی ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں سے رہا اوربی جے پی سرکار میں شامل رہے اپنا دل سے بھی تھا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عتیق کے قتل پر غیر ملکی میڈیا نے یہ نہیں لکھا کہ ہندوستان کا ایک مافیا مارا گیا اس نے لکھا کہ ہندوستان کے ایک ایم پی اور 5بار کے ایک ایم ایل اے کا پولیس کسٹڈی میں قتل کردیا گیا اور تو اور بحرین کی پارلیمنٹ میں بھی یہ سوال اٹھ گیا اگر کسی لیڈر کے دیارِ غیر میں بیان سے ملک بد نام ہوا جو غداری کے مترادف تھا تو عتیق کے پولیس کسٹڈی میں قتل اور ا س پر جشن سے کیا دنیا میں ملک کی بدنامی نہیں ہورہی ہے آخر جشن کس بات کا؟ ایک مافیا مارا گیا اس کی جگہ تین اور مافیا پیدا ہو گئے یا اس لئے کہ مرنے والے مافیا کا نام عتیق تھا؟ آخر یہ جشن کی بات ہے کہ تشویش کی کہ ہماری سیاست کس سمت جا رہی ہے اور ہماری سرکاریں یہ کیسا کھیل کھیل رہی ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS