اسرائیل کی معیشت اور غزہ بحران

0

فلسطین میں جو انسانیت سوز قتل عام ہورہا ہے اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو جس پر اتنی توجہ نہیں ہے وہ غزہ کی معیشت اور وہاں کے لوگوں کے روزگار کا ہے۔ اس بحران کا اثر نہ صرف غزہ اور فلسطینیوں پر پڑ رہا ہے بلکہ اسرائیل کا مضبوط معیشت اس سے متزلزل نظرآرہا ہے۔ ابھی تو یہی طے نہیں ہوپایا ہے کہ غزہ میں کتنے لوگ ظالم اسرائیل کی بمباری میں بچے ہیں یا بچ پائیںگے۔ اس کے بعد اگر جب جنگ بندی ہوگی جس کا فی الحال کوئی روشن امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے تو وہاں بازآبادکاری کی کیا صورت بنے گی۔ چونکہ اس خطے میں کون روزمرہ کے امور دیکھے گا اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اسرائیل کے ارباب اقتدار میں وہاں کی بازآبادکاری کے طریقہ کار کولے کر اختلافات ہیں۔ غزہ میں کون نظم و نسق سنبھالے گا اس پر امریکہ اوراسرائیل کے درمیان بھی اختلافات ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی یہ غورنہیں کر رہا ہے کہ فلسطین کے ہزاروں لوگ جو اسرائیل کے مکمل قبضے اوراقتدار والے علاقوں میں روزگار کے لئے جاتے تھے ان کی ان علاقوںمیں داخلے کی کیا صورت ہوگی۔ کیا اسرائیلی سرکار 7؍اکتوبر کے تجربات کے پیش نظر کوئی دوسرا طریقہ اختیارکرے گی اور اگر کرے گی تووہ کیا ہوگا اورکئی حلقوں میں تویہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ شاید اسرائیل ان علاقوں میں غزہ یا مغربی کنارے کے لوگوںکو داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دے ۔ اس دوران یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ کچھ ممالک خاص طورپر ایشیائی ممالک سے اسرائیل میں ورک فورس کو لاکر وہاں کی حکومت درپیش ممکنہ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ جیسا کہ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹس آرہی ہیں کہ ان علاقوں میں ہندوستان کے ورک فورس بھیجنے کے لئے کوئی طریق کار اختیار کیا گیا ہے۔ شمالی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے صوبے ہریانہ سے کچھ لوگ بھرتی کئے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ کن یقین دہانیوں اور گارنٹیوں کے ساتھ اسرائیل جائیں گے اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ کچھ ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹ شائع ہوچکی ہیں کہ ان مزدوروں کے قیام وطعام اور تحفظ سے متعلق امور کے بارے میں کوئی یقین دہانی اسرائیل کی طرف سے فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ملک جوکہ کئی ملکوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور وہاں کی معیشت اس جنگ اور اس جنگ سے متعلق دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے وہاں ہندوستان سے منتقل کئے گئے مزدور کیا کریںگے۔ ہندوستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کے ایک اورملک سری لنکا سے بھی کچھ مزدوروں کو لانے کی بات کہی جارہی ہے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ تعمیرات کے سیکٹر کے علاوہ کون سے ایسے سیکٹر ہیں جہاں پر ان ایشیائی ممالک کے لوگ استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ سری لنکا کی معیشت غیرمعمولی اتھل پتھل کا شکار ہے اور اسی وجہ سے وہاں پر سیاسی عدم استحکام کا دور ہے۔وہاں بے روزگاری اورکسادبازاری شدید ہے۔ ضروریات کے سامان، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ہندوستان اور سری لنکا کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے ایک ملک ازبکستان سے بھی کچھ مزدور یا دیگر عملہ اسرائیل منتقل ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر مزدوروںاور کام کرنے والے افراد اسرائیل کے تعمیراتی سیکٹر میں مصروف ہیںکچھ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کچھ عرب اور فلسطینیوںکو اپنے تعمیراتی سیکٹر میں کام کرنے کی اجازت دے گا مگر ان مزدوروں کی نقل و حرکت پر پہلے سے بھی زیادہ سخت نظررکھی جائے گی اورفلسطینی لوگ اسرائیل میں جاکر سخت نگرانی اور پابندیوںمیں کام کریںگے۔ ان مزدوروں کی تعداد 72ہزار بتائی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے غیرمعمولی حالات میں یہ لوگ کس طرح اور کن پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اسرائیل میں کام کریںگے۔ اسرائیل کی حکومت نے سیکورٹی ایشوز کو لے کر بڑی تعداد میں فلسطین کے مختلف حصوں سے آنے والے عربوں کی آمد پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اسرائیل مختلف ایشیائی ممالک سے ورک فورس منتقل کرائے گا تواس پر کس قسم کی پابندیاں ہوںگی اوروہ کن کن سیکٹروں میں ان کا استعمال کرپائے گا۔
7؍اکتوبر کے بعد سے جو صورت حال پیش آئی ہے اس کا اثر اسرائیل کے کئی سیکٹروں میں پڑا ہے۔ کئی تعمیراتی پروجیکٹ موقوف کردیے گئے ہیں۔ اسرائیل میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جوملازمین اپنے یہاں رکھے تھے ان ملازمین کی عدم موجودگی کا اثر ان ملٹی نیشنل کمپنیوں پر پڑ رہا ہے۔ اس جنگ کے چھڑجانے کے بعد اسرائیل کی معیشت پر اس کا اثر ان معنوں میں بھی پڑے گا کہ کئی غیرملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں اسرائیل کا رخ کرتے ہوئے کترارہی ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل اسرائیل کا سیکورٹی نظام ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اور بڑی بڑی کمپنیاں بڑے اعتماد کے ساتھ اسرائیل میں سرمایہ کاری کر رہی تھیں۔ ایک صورت حال اور پیدا ہوئی ہے کہ اسرائیل میں بنی مصنوعات کا کئی ممالک میں بائیکاٹ ہوا ہے۔ یہ بائیکاٹ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے اور مشکلات پیدا کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں مصنوعات مسلم اور عرب دنیا میں اسی طرح بائیکاٹ کی جائیںگی جس طرح اسرائیل کی خودکی اپنی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے یا نہیں۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی مظلومیت والے ملک کی امیج کو بھی دھچکا لگا ہے۔ مغربی ممالک میں اسرائیل کے خلاف خوب مظاہرے ہورہے ہیں۔ عالمی رائے عامہ بدلی ہے۔ فلسطینیوںکے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جارہا ہے۔ کسی بھی بڑی معیشت والے ملک کے لئے ا س قسم کے جذبات کا ہونا منفی ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ معیشت پر امیج کا اثر پڑتا ہے۔ امیج کو بہتر بنانے کے لئے بڑی بڑی کمپنیاں سلیبرٹیز، کھلاڑیوں، مقبول شخصیات اور اداکاروں کو ہائر کرتی ہیں، ان کو مختلف تقریبات میں مدعوکرتی ہیں۔ یہ امیج بنانے والی حکمت عملی کے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں غیرممالک سے ورک فورس کا اسرائیل میں منتقل ہونا کتنا فائدہ مند ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ خاص طورپر اسرائیل کا کلائمیٹ بہت سخت ہوتا ہے۔ وہاں پر حکومت کے ذریعہ عائد پابندیاں کافی سخت ہیں۔ اس کے علاوہ زبان کا مسئلہ بھی ہے۔ ہندوستان کے مزدور اپنے مالکوں یا سپروائزرس سے کس طرح مکالمہ اور گفتگو کریںگے اس سے بھی ایک بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔ ہندوستان سے یا دوسرے ملکوں سے منتقل ہونے والی لیبران سختیوں میں کس طرح روزمرہ کے فرائض انجام دے پائیںگی۔ یہ کہنا محال ہے۔ خاص طورپر ہیلتھ انشورنس اور لیبر قوانین کی وجہ سے بھی دوسرے ملکوں سے اسرائیل منتقل ہونے والے مزدوروں کے لئے مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل کی معیشت کس حد تک غزہ کی جنگ کے حالات کا مقابلہ کرپائے گی۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS