قیام امن سے اسرائیل کا انحراف برقرار

0

اسرائیل مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کے لئے کتنا غیرسنجیدہ ہے اس بات کا اندازہ گزشتہ روز برسلز میںہونے والی امن کانفرنس کے دوران ایک بار پھر ہوگیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یوروپی یونین کی مصالحت سے عرب اور اسرائیل سفارتی افسران کے درمیان مذاکرات کے دوران اسرائیل نے کسی بھی طرح امن مذاکرات شروع کرنے میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے اور ایک غیرعملی منصوبہ اپنی طرف سے پیش کیا ہے جس میں غزہ کے ساحل پر ایک مصنوعی جزیرہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اسرائیل نے غزہ کو اس مصنوعی جزیرے سے ملانے کے لئے ایک ریلوے ٹریک بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ یوروپی یونین کے امور خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ وہ دوریاستی فارمولے پر عمل درآمدکرانے کے لئے کوششیں کرتے رہیںگے۔ انہوںنے کہا کہ قیام امن کا نظریہ ایک عام سا اصول ہے اور کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس نظریے کے خلاف ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم صرف امن امن کی بات نہ کہہ کر خاص اور بنیادی حل کی طرف توجہ دیں اور بنیادی نکات پر بات کریں۔ اس دوران مصر اور قطر کی مصالحت سے ہونے والے مذاکرات میں اسرائیلی یرغمالیوںکو رہا کرنے کے لئے کسی مستقل جنگ بندی کی بجائے صرف دو ماہ کی جنگ بندی کا مشورہ دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے حماس کے ذریعہ مستقل جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔ حماس کا موقف یہ ہے کہ مستقل جنگ بندی کے بعدہی اس کی قید میں جوبھی اسرائیلی ہیں ان کو رہا کیا جاسکتا ہے۔ اس دوران حماس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں اسرائیل کے ہی تقریباً 70یرغمالی مارے گئے ہیں۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ غزہ کے خان یونس میں اب تک 24گھنٹوںکی جنگ میں تقریباً دو درجن فوجیوںکی موت ہوچکی ہے۔ اس علاقے کو اسرائیل نے کئی دنوں سے بربریت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان اس مقام پر زبردست معرکہ ہے۔ یہاں کے تمام رہائشی عمارتوںکو تقریباً مسمار کردیا گیا ہے اور فوجی کارروائی میں حسب سابق اور حسب روایت عام شہری اورجنگجوئوںمیں کوئی تمیز نہیں کی جارہی ہے۔ گزشتہ روز اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ نے زبردست مظاہرہ کیا، جس میں مظاہرین نے اسرائیل کی پارلیمنٹ کے اندر داخل ہوکر اپنے لواحقین کی رہائی میں ناکام نیتن یاہو سرکار پر غصہ اتارا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے ایک بڑے طبقے کی ناراضگی نیتن یاہو سے چل رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اقتدار میں آتے ہی بڑے پیمانے پر جوڈیشیل اصلاحات کے نام پر ایسے منمانے انداز سے نظام عدل کو بدلنا شروع کردیا ہے جس سے ان کو سیاسی فائدہ حاصل ہو اور ان کو درپیش قانونی چیلنج سے چھٹکارہ مل سکے۔ اس مہم کے خلاف اسرائیل میں شدید ناراضگی ہے۔ اس سے قبل بھی اسرائیل میں نیتن یاہو کے مخالف اور ان کو کرپشن ومنمانے انداز میں حکومت چلانے کے لئے نکتہ چینی کرنے والے بڑے طبقے نے منظم طریقے سے مظاہرے کئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں اسرائیل کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ فوج کے اعلیٰ افسران جن میں جنگی جہاز اڑانے والے پائلٹ، مختلف ممالک میں تعینات سفارت کار بشمول سفرا بھی اپنی خدمات سے احتجاجاً دور رہے ہیں۔ کئی ممالک میں ان احتجاجوںکی وجہ سے اسرائیلی سفارت خانوں کا کام کاج بھی متاثر ہوگیا تھا۔ ان مظاہرہوںکی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اسرائیل میں نیتن یاہو کے نظریات اوران کے طریق کار کو لے کر کئی طرح کے اختلافات ہیں۔ 7؍اکتوبر 2023 کے بعد سے جو صورت حال پیش آئی ہے اس پر بھی نیتن یاہو کہ پالیسی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ چند روز قبل یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ اسرائیلی فوج کے بہت سے فوجیوں نے حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ اس وقت اسرائیل شدید مشکلات سے دوچار ہے اور کئی طبقات نیتن یاہو کی حکومت کی نااہلی اور لاقانونیت کے سامنے سپرڈالنے کی پالیسی کو اس بحران کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ایک بڑے طبقے کا یہ کہنا کہ نیتن یاہو عوامی سطح پر اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوںکو دبانے میں اتنے مصروف تھے کہ ان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ حماس یا فلسطینی حریت پسند اسرائیل کے خلاف اتنے بڑے اور منظم پیمانے پر عسکری کارروائی کرسکتے ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ بات بھی دہرائی جارہی ہے کہ نیتن یاہو کی فوجی کارروائی میں شدت کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ ان حملوں کی خفیہ رپورٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے لہٰذا اپنی اسی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ فلسطینیوںکا خون بہا رہے ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی کے پس پشت اپنی سرکار کو سیاسی عدم استحکام سے بچانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو مسلسل عوام کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ فوجی کارروائی ایک سال تک چل سکتی ہے۔ جبکہ داخلی سطح پر ان کے خلاف اس قدر شدید ناراضگی ہے کہ وہاں کی کئی سیاسی پارٹیاںاور لیڈر اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب غزہ کا معرکہ ختم ہو۔ نیتن یاہو نے ابھی تک کسی بھی سطح پر اس بات پر اتفاق نہیں کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہوجائے گی۔ وہ جنگ کے خاتمے کو لے کر زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ یمن کے باغی ایران نواز حوثیوں نے اسرائیل کے لئے کافی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ بحراحمر میں فوجی کارروائی کے باوجود امریکہ اور برطانیہ کی قیادت والے فوجی اتحاد آبی راہداریوںکو محفوظ نہیں بنا سکے ہیں اوراس کی وجہ سے اسرائیل تک پہنچنے والا عسکری سازوسامان مثلاً گولہ بارود، مواصلاتی آلات اور جدید ہتھیار اسرائیلی فوج تک پہنچانے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ ان مشکلات کی وجہ سے اسرائیل سائپرس کے ذریعہ سازوسامان حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پوری جدوجہد میں اسرائیل کے اندر ضروری اشیا کی کمی ہورہی ہے۔ غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور حماس کا یہ اعلان کہ اسرائیلی فوجی کارروائی میں تقریباً ڈیڑھ سو میں سے 70اسرائیلی یرغمالی مارے جاچکے ہیں، اسرائیل کے اندر ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 7؍اکتوبر سے جب سے یہ بحران پیدا ہوا ہے اب تک اسرائیل کی ایک محفوظ ملک کی امیج کونقصان پہنچا ہے۔ یہ اسرائیل کے بنیادی فارمولے جس کے تحت وہ دنیا بھرکے یہودیوں کو اپنے یہاں بلاتا رہا ہے اوران کو بسنے میں ہر ممکن تعاون دیتا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک غیرمحفوظ ملک جوکہ چاروں طرف سے اپنے حریفوں سے گھرا ہو ، وہاں کون آکر اپنی زندگی جوکھم میں ڈالے گا۔ اسی لئے کئی ماہرین اور دانشوروںکا خیال ہے کہ غزہ کی یہ جنگ اسرائیل کے وجود اوراس کی سلامتی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS