اسرائیلی جارحیت اوراقوام متحدہ کی بے بسی: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

امن عالم کی یوں تو ہر ملک اور فرد کی ذمہ داری ہے تاکہ دنیا کو خوبصورت بنایا جاسکے، لیکن اقوام متحدہ کی خصوصی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کا وجود ہی اس لیے عمل میں آیا تاکہ دنیا کو جنگ کی لعنت سے نجات مل سکے۔لیکن اس وقت دنیا کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،دنیاکا ہر خطہ جنگ کی زد میں ہے اور یہ ادارہ بے بس نظر آ رہا ہے۔خود اس ادارے کے افراد اس قدر بے دست و پا ہیں کہ ان کے ویزے تک منسوخ کر دیے جارہے ہیں اور امن عالم کا ضامن یہ ادارہ کچھ نہیں کرپاتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین کشمکش میں اس ادارے کی حیثیت مزید کھل کر سامنے آگئی ہے۔اس ادارے کے چھوٹے بڑے شعبۂ جات یہ مانتے ہیں کہ اسرائیل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے،وہ بچوں،بزرگوں،عورتوں اور بیماروں کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گویتریس(سابق وزیراعظم پرتگال)نے حماس کے حملے کو بلا وجہ نہیں بتایا، انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 56 برس سے فلسطینی سانس روک دینے والے استحصال کا شکار ہیں،انہوں نے اپنی زمین کو دھیرے دھیرے اسرائیلی بستیوں اور دہشت کی زد میں آتے دیکھا ہے،ان کوہجرت پر مجبور کیا گیا ہے،ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کے سیاسی امکانات معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔اس ادارے کو اس حقیقت تک رسائی میں 56برس لگ گئے، مگر اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جوملک اس ادارے کے قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے، وہ اسی ادارے کا ممبر ہو کر اس کے سکریٹری جنرل سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کر رہا ہے اور سکریٹری جنرل اپنے بیان پر صفائیاں پیش کر رہے ہیں،جس سے اس ادارے کے وقار اور اس کی بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دنیا جب ملوکیت اور بادشاہت کی جنگوں سے نکل کر جمہوریت اور انسانیت کی طرف آئی تو امن عالم اور بھائی چارے کا خواب دیکھا گیا، دنیا کو امن کا ایک ایسا گہوارہ بنانے کی جانب پیش رفت کی گئی جس میں مساوات کو بنیادی اہمیت حاصل ہو، کلونیل ازم اور قبضہ کے لیے کسی صورت میں کوئی جگہ نہ ہو، اس لیے لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، مگر وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا جس کے بعداپریل1945 سے 26 جون 1945میں سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ یا United Nationsکا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر 1945 میں معرض وجود میں آیا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی تمہید کے مطابق ’’ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدر و منزلت کریں گے۔مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔ لہٰذا یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔ ہمسایوں سے پرامن زندگی بسر کریں۔ بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریںنیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں، اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں‘‘۔اقوام متحدہ کی شق نمبر 1 کے تحت اقوام متحدہ کے مقاصد درج ذیل ہیں۔مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا،ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر اس کی زمینی حقیقت سے متعلق قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ ‘‘ میں جو لکھا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔قدرت اللہ شہاب ان افراد میں سے تھے جو غیر منقسم ہندوستان میں سول سروسز میں تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی ایام میں وہ الیکشن جیت کر چھ برس کے لیے ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبر ہوئے۔وہ لکھتے ہیں: ’’پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیے لیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی، لیکن یہ انجمن کفن چوروں کی جماعت ثابت ہوئی اور اقوام عالم کی بہت سی قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اس نے آرام سے جنیوا میں دم توڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تنظیم نو یو این او نے جنم لیا۔ اس ادارے کا رہنما اصول ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ ہے۔ جب کوئی لاٹھی والا طاقتور ملک جارحیت سے کام لے کر کسی چھوٹے اور کمزور ملک کی بھینس زبردستی ہنکا کر لے جاتا ہے تو یو این او فوراً جنگ بندی کا اعلان کر کے فریقین کے درمیان سیز فائر لائن کھینچ دیتی ہے۔ جنگ بندی کے خط پر یو این او کی نامزد فوج اور مبصر متعین ہو جاتے ہیں۔ جو اس بات کی خاص نگہداشت رکھتے ہیں کہ مسروقہ بھینس دوبارہ اپنے ملک کے پاس واپس نہ پہنچنے پائے۔ اس کے بعد یہ سارا معاملہ جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل کی قراردادوں میں ڈھل ڈھل کر نہایت پابندی کے ساتھ یو این او کے سرد خانوں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔‘‘
اس وقت فلسطین جس طرح سے اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہے وہ ناقابل بیان ہے،دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل نے دھیرے دھیرے پورے فلسطین کو ہضم کر لیا ہے اور فلسطینیوں کی آزادی کو غلامی میں تبدیل کردیا ہے۔وہ اقوام متحدہ میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ حماس نے چھوٹے بچوں،بزرگوں اور عورتوں کو قتل کیا ہے،ان کویرغمال بنایاہے اس لیے وہ دہشت گرد لوگ ہیں، لیکن وہی اسرائیل غزہ پر بمباری کرکے بغیر کسی امتیاز کے عوام کو نشانہ بنا رہاہے اور بے شرمی سے اسے حق دفاع کا نام دیا جارہا ہے۔خود اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے سربراہ جو فلسطین میں کام کر رہے ہیں، اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ فلسطین میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔اشیائے خورد ونوش سے لے کر طبی سہولیات کا فقدان ہے۔اب تک 6500 سے زائد لوگوں کی موت ہوچکی ہے جس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔یہ وہ باتیں جو پوری دنیا جانتی ہے۔اس کے باوجود مغربی دنیا اسرائیل کی حمایت میں کھڑی ہے اور یہ ادارہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔افسوس کی بات تویہ ہے کہ سکریٹری جنرل کے بیان کے بعد حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والے اسرائیل کے نمائندے نے اسی ادارے کے اجلاس میں کہاکہ اب ان لوگوں کو سبق سکھایا جانا چاہیے اور اعلیٰ حکام کے ویزے منسوخ کیے جانے کا بھی اعلان کیا۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ یہ ادارہ کس قدر بڑی طاقتوں کا یرغمال ہوچکا ہے اورقدرت اللہ شہاب نے پچاس برس پہلے جو حقائق لکھے تھے، وہ کتنے درست تھے۔دنیا کو اگر واقعی امن کا گہوارہ بنانا ہے تو انصاف اور مساوات کو فروغ دینا ہوگا، مگر یہ باتیں نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ دنیا جمہوریت،انسانیت اور مساوات کے ضامن و علمبردار اس ادارے کی بے بسی ضرور دیکھ رہی ہے اور اس حقیقت سے بھی واقف ہو رہی ہے کہ اس ادارے کا وجود صرف کمزوروں کو مزید دبانے کے لیے ہے اور جس کلونیل ازم کے خاتمہ کے لیے اس کاوجود عمل میں آیا تھا، اس کو مزید مضبوطی اس ادارے کے پس پشت دی جا رہی ہے۔جس کی وجہ سے دنیا امن کا گہوارہ بننے کے بجائے جہنم بنتی جا رہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS