اسرائیل کے حملے جاری، غزہ میں یرغمال اپنے ہی 3 شہریوں کو مارڈالا

0
فائل فوٹو
فائل فوٹو

غزہ، (ایجنسیاں):اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں مسلسل حملے جاری ہیں۔ہفتہ کو اسرائیل کے حملوں میں غزہ میں درجنوں لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ فلسطینی میڈیا کے مطابق اولڈ غزہ اسٹریٹ کے جبالیہ میں گھروں پر حملے ہوئے ہیں۔ ان میں تقریباً 14 افراد کی موت ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دیگر حملے میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔ یہ تب ہوا ہے کہ جب امریکہ نے اسرائیل سے حملوں میں کمی لانے اور صرف حماس لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے کہا ہے۔ فلسطینی ایجنسیوں کے مطابق ان حملوں کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ملبے کے اندر دبے ہوئے بھی ہیں۔

دریں اثنا اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غلطی سے غزہ میں حماس کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے اپنے 3 شہریوں کو قتل کر دیا ہے۔ ان افراد کو خطرہ قرار دیا گیا تھا جو کہ ’حقائق کے منافی تھا۔‘ ہلاک ہونے والے یرغمالیوں میں 28 برس کے یوتم حمیم، 22 برس کے سمیر تلاکا اور 26 برس کے ایلن شمریز شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج نے 3 شہریوں کے قتل پر پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تینوں افراد کو فوجیوں نے غزہ کے شمال میں شجائیہ کے مقام پر نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد حماس نے یرغمال بنائے جانے والوں میں سے 100 سے زائد کو غزہ میں ہی رکھا تھا۔اسرائیل کی دفاعی افواج نے کہا ہے کہ جمعہ کو ہونے والے اس واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور کہا ہے کہ وہ ’اس واقعہ پر گہرے افسوس کا اظہار کرتی ہیں اور مارے جانے والے افراد کے خاندانوں سے دلی تعزیت کرتی ہیں۔‘ فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہمارا ہدف لاپتہ شہریوں کو تلاش کرنا اور تمام یرغمال بنائے جانے والوں کو حفاظت سے واپس ان کے گھر بھیجنا ہے۔ سیکڑوں اسرائیلی تل ابیب میں احتجاج کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شہر میں اسرائیلی دفاعی افواج کے فوجی اڈے کی طرف مارچ کیا اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ باقی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے معاہدے کو یقینی بنائے۔

اس احتجاج کے شرکا نے ہاتھوں میں موم بتیاں اور پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے جن پر یہ درج تھا کہ ’(انہیں) گھر لے کر آؤ اور یرغمالیوں کا فوری تبادلہ کرو۔‘ مارے جانے والے 3 شہریوں کی لاشیں اسرائیل پہنچا دی گئی ہیں جہاں ان کی شناخت کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان کی موت کو ایک ’ناقابل برداشت سانحہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس مشکل شام میں بھی، ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں گے، سبق سیکھیں گے اور اپنے تمام شہریوں کی بحفاظت گھر واپسی کی بہترین کوشش جاری رکھیں گے۔‘ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ ہلاکتیں ایک ’افسوسناک غلطی‘ تھیں اور یہ کہ امریکہ کے پاس ’اس کارروائی کے بارے میں بالکل واضح معلومات نہیں ہیں۔‘ 7 اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اس کے بعد یرغمال بنائے جانے والوں میں سے 100 سے زائد یرغمالی غزہ میں قید میں ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی رہائی کے حوالے سے حکومت کی پالیسی کے خلاف لوگ تل ابیب کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے اسرائیل کی سرکاری پالیسی حماس پر فوجی دباؤ برقرار رکھنا ہے تاہم یرغمالیوں کے لواحقین کل جمعہ کی شب تل ابیب میں وزارت دفاع کے باہر احتجاج کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے حکومت کی پالیسی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ‘ہر روز ایک یرغمالی مرتا ہے ‘۔ قابل ذکر ہے کہ قطر، مصر اور امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی ثالثی سے اب تک غزہ سے 110 مغویوں کو رہا کرایا جا سکا ہے۔

مزید پڑھیں:کویت کے امیر شیخ نواف الاحمد الصباح کا انتقال

یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کی متحدہ عرب امارات کے صدر سے ٹیلی فونک بات چیت

اس کے لئے حال ہی میں 7دن کی جنگ بندی ہوئی تھی، لیکن اب اسرائیل نے اپنی فوجی مہم دوبارہ شروع کر دی ہے، جس سے 100 سے زائد یرغمالیوں کو تلاش کرنا اور آزاد کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے اب لوگوں نے حکومت پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد کے سربراہ جلد ہی اس معاملے پر بات کرنے کے لیے قطر کے وزیر اعظم سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS