علمائے اسلام نے کبھی نہیں کی انگریزی تعلیم کی مخالفت

0

عقیدت اللہ قاسمی
جیسا کہ دین اسلام سے عنادومخالفت یعنی اسلاموفوبیا رکھنے والوں کا وطیرہ ہے مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے نام نہاد دانشووروں کا بھی اٹھتے ،بیٹھتے یہی مشغلہ ہے کہ وہ مسلمانوں اور علما کے خلاف لعن طعن کو اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائے رہتے ہیں، حتی کہ اگر کبھی کوئی ان کی ہرزہ سرائی کے مقابلہ میں ڈٹ جائے تو انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ کہہ کر قہقہہ لگانے لگتے ہیں ۔ارے صاحب! آپ تو سنجیدگی سے دل پر لے رہے ہیں ، ہم تو دفع الوقتی وقت گزاری اور ٹائم پاس کررہے تھے ، اس دفع الوقتی کے مشغلہ کے لئے ان کا ایک سب سے بڑا ذریعہ مولویوں کے خلاف سرسید پر انگریزی تعلیم کے انتظام کی وجہ سے کفر کافتویٰ لگانے کا بہتان عظیم ہے۔حالانکہ خودسرسید احمد خاں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نقش اولین مدرسۃ العلوم کے قیام 24مئی 1875 سے 16سال قبل یعنی 1859میں اپنے رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں شاہ عبد العزیز ؒکا دیا ہوا فتویٰ ان الفاظ میں چھاپ کر بھیج دیاتھا۔کالج انگریزی میں جانا اور پڑھنا اور انگریزی زبان کا سیکھنا بموجب مذہب کے سب درست ہے‘‘ اور سرسید نے آگے لکھا تھا کہ اس یعنی فتویٰ کی بنیا دپر سیکڑوں مسلمان کا لجوں میں داخل ہوئے۔
سرسید احمد خا ںنے رسالہ کے صفحہ 14پر لکھا ’’جس قدر اسباب سرکشی کے جمع ہوگئے ، غور کرکے سب کو احاطہ میں لیا جائے تو پانچ اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں‘‘اور ان پانچوں اصل کی تفصیل اور اس کی ہر ہر شاخ کو جس طرح بیان کیاہے ان میں پہلی اصل رعایا کی غلط فہمی یعنی گورنمنٹ کی تجویزوں کو غلط سمجھنا قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ ’ اس مقام پر ہم جتنی باتیں بیان کریں گے ان سے ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ درحقیقت ہماری گورنمنٹ میں یہ باتیں تھیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے یوں غلط سمجھا اور یہ سرکشی کا سبب ہوگیا۔اگر ہندوستانی آدمی بھی لیجس لیٹو کونسل میں مداخلت رکھتے ہوتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ تمام لوگ جاہل اور قابل اور اعلیٰ وادنیٰ یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی ارادہ ہے کہ (مقامی لوگوں کے) مذاہب اور رسم ورواج میں مداخلت کرے اور سب کو چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، عیسائی مذہب اور اپنے ملک کے رسم ورواج پر لاڈالے اور سب سے بڑا سبب اس سرکشی میں یہی ہے۔ ہر شخص دل سے جانتا تھا کہ ہماری گورنمنٹ کے احکام بہت آہستہ آہستہ ظہورمیں آتے ہیں اور اسے جو کام کرناہوتاہے رفتہ رفتہ کیا کرتے ہیں۔اس واسط نے ایک ہی بار میں اور زبردستی دین بدلنے کو نہیں کہتے مگرجتنا جتنا قابو پاتے جائیں گے اتنی اتنی مداخلت کرتے جائیں گے اور جو باتیں رفتہ رفتہ ظہور میں آتی گئیں جن کا بیان آگے آئے گاوہ ان کے اس غلط شبہ کوزیادہ ترمستحکم اور مضبوط کرتی گئیں، سب کو یقین تھا کہ ہماری گورنمنٹ علانیہ جبرمذہب بدلنے پر نہیں کرے گی بلکہ خفیہ تدبیر یں کرکے جیسے عربی وسنسکرت کے علم کو نابود اور ملک کو مفلس ومحتاج کردینے اور دوسرے لوگوں کو ان کے اصل مذہب اور اس کے مسائل سے ناواقف کیا ہے اور اپنے دین ومذہب کی کتابیں اور مسائل اور وعظ کو پھیلا کر نوکریوں کا لالچ دے کر بے دین کردیں گے۔1837کی قحط سالی میں جویتیم لڑکے عیسائی بنائے گئے وہ تمام مغربی وشمالی اضلاع میں گورنمنٹ کے ارادے کے ایک نمونہ تصورکئے جاتے تھے کہ اس طرح ہندوستان کو مفلس اور محتاج کرکے اپنے مذہب میں لے آئیں گے۔
مزید یہ کہ ہندوستان میں ہماری حکومت کے ابتدائی دور میں مذہب سے متعلق گفتگو بہت کم ہوئی تھی۔پھر روزبروززیادہ ہوتی گئی اور اس زمانہ میں کمال کے درجہ کو پہنچ گئی ، اس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ کو ان امور میں کچھ مداخلت نہ تھی، مگر ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب معاملے گورنمنٹ کے حکم ،اشارے اور مرضی سے ہوتے ہیں۔سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادری صاحبوں کو ہندوستان میں مقرر کیاہے ، گورنمنٹ سے پادری تنخواہ پاتے ہیں گورنمنٹ اور انگریزی حکام جو ولایت سے آتے تھے ، جو اس ملک میں نوکرہیں وہ پادریوں کو بہت ساروپیہ خرچ کے واسطے اور کتابیں بانٹنے کے واسطے دیتے ہیں اور ہر طرح ان کے مدد گار اور معاون ہیں۔اکثر عہدہ دار حکام اور فوج کے افسران نے اپنے ماتحت ملازمین سے مذہب سے متعلق گفتگو شروع کی تھی۔بعض صاحب اپنے ملازموں کو حکم دیتے تھے کہ ہماری کوٹھی پر آکرپادری صاحب کا وعظ سنا کرو اور ایسا ہی ہوتا تھا۔غرض کہ اس بات نے ایسی ترقی پکڑی تھی کہ کوئی شخص یہ نہیں جانتاتھا کہ گورنمنٹ کی عملداری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا یا نہیں پادری صاحبوں کے وعظ نے نئی صورت نکالی تھی کہ مذہب سے متعلق تکرار وبحث کی کتابیں سوال وجواب کے طور پر چھپنی اور تقسیم ہونی شروع ہوئیں۔ ان کتابوں میں دوسرے مذہب کے مقدس لوگوں کی نسبت تکلیف دہ الفاظ اور مضامین درج ہوتے۔ ہندوستان میں وعظ اور کتھا کا دستور یہ ہے کہ اپنی عبادت گاہ یا مکان پر بیٹھ کر کہتے ہیں ، جس کا دل چاہے اور جس کو رغبت ہو وہاں جاکر سنے۔پادری کا طریقہ اس کے برخلاف تھا،وہ خودغیر مذہب کے مجمع اور تیرتھ گاہ میں جاکر وعظ کہتے تھے اور کوئی شحص صرف حکام کے ڈرسے مانع نہ ہوتا تھا۔بعض ضلعوں میں یہ رواج چلا کہ پادری صاحبوں کے ساتھ تھانے کا ایک چپراسی جانے لگا۔پادری صاحب صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکفتا نہیں کرتے تھے بلکہ غیر مذہب کے مقدس لوگوں اور مقدس مقاموں کی بہت برائی سے اور ہتک سے یادکرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی اور ہماری گورنمنٹ سے ناراضی کا بیج لوگوں کے دلوں میں بویا جاتاتھا۔
سرسید مزید کہتے ہیں کہ مشنری اسکول بہت جاری ہوئے اور ان میں مذہبی تعلیم شروع ہوئی ، سب لوگ کہتے تھے کہ سرکار کی طرف سے ہیں بعض اضلاع میں بہت بڑے بڑے عالی قدر کے حکام عہدہ دار ان اسکولوں میں جاتے تھے اور لوگوں کو اس میں داخل اور شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔امتحان مذہبی کتابوں میں لیا جاتاتھا اور طلب علموں سے جولڑکے کم عمر ہوتے تھے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارا خدا کون ؟تمہارا نجات دینے والا کون ؟اور وہ عیسائی مذہب کے موافق جواب دیتے تھے۔اس پر ان کو انعام ملتاتھا ان سب باتوں سے رعایا کا دل ہماری گورنمنٹ سے پھرتاجاتاتھا۔ یہاں ایک بڑا اعتراض یہ پیدا ہوگیا کہ کمال خراب حال اور مفلس اور نہایت تنگ اور تباہ حال ہوجانے پریہ صرف ہندوستان کی محتاجی اور مفلسی کا باعث تھا کہ لوگ اس خیال سے کہ ان اسکولوں میں داخل ہو کر ہماری اولاد کو سچی معیشت اور روزگارحاصل ہوگا۔ایسی سخت بات جس سے بلاشبہ ان کو دلی رنج اور روحانی غم تھا گزارا کرتے تھے۔دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب لوگ یقین کے ساتھ سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کو یہ مکتب جاری ہوتے ہیں۔پرگنہ وزیٹراور ڈپٹی انسپکٹرجوہر گائوں اور قصبہ میں لوگوں کو نصیحت کرتے پھرتے تھے کہ لڑکوں کو مکتبوں میں داخل کرو۔ ہر گائوں میں کالا پادری ان کا نام تھا جس گائوں میں پرگنہ وزیٹریاڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور گنواروں نے آپس میں چرچا کیا کہ کالا پادری آیا۔ عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب میں کرسٹان بنانے کو بٹھاتے ہیں اور فہمیدہ آدمی اگر چہ یہ نہیں سمجھتے تھے مگر یوں جانتے تھے کہ ان کے مکاتب میں صرف اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ ہمارے لڑکے اس میں پڑھ کر اپنے مذہب کے احکام ومسائل اور عقائد ورسوم سے بالکل ناواقف ہوجائیں گے اور عیسائی بن جائیں گے اور یوں سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کا یہی ارادہ ہے کہ ہندوستان کے مذہبی علوم کو معدوم کردے تاکہ آئندہ عیسائی مذہب پھیل جائے۔ مشرقی ہندوستان کے اکثر اضلاع میں ان مکتبوں کا جاری ہونا اور لڑکوں کا ان میں داخل ہونا صاف تحکماً ہوا اور کہہ دیا کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ لڑکوں کو ان میں داخل کرایا جائے۔اس کے ساتھ ہی لڑکیوں کی تعلیم کا چرچا ہندوستان میں بہت تھا اور سب یقین جانتے تھے کہ سرکار کا مقصد یہ ہے کہ لڑکیاں اسکولوں میں آئیں اور تعلیم پائیںاور بے پردہ ہوجائیں کہ یہ بات حد سے زیادہ ہندوستانیوں کو ناگوارتھی۔بعض بعض اضلاع میں اس کا نمونہ قائم ہوگیا تھا، پرگنہ وزیٹر اور ڈپٹی انسپکٹر یہ لکھتے تھے کہ اگر ہم کوشش کرکے لڑکیوں کے مکتب قائم کردیں گے توہماری بڑی نیک نامی گورنمنٹ میں ہوگی۔ اس سبب سے وہ ہر طریقہ سے جائز وناجائزلوگوں کو وسطے لڑکیوں کے مکتب قائم کرنے پر مجبور کرتے تھے اور اس سبب سے زیادہ تر لوگوں کے دلوں کو ناراض اور اپنے غلط خیالات کا یقین ہوتاجاتا تھا۔ بڑے بڑے کالج جو شہروں میں قائم تھے،اگر چہ شروع میں لوگوں کو ان سے بھی کچھ وحشت ہوتی تھی، اس زمانہ میں شاہ عبدالعزیز جو تمام ہندوستان میں نہایت نامی مولوی تھے، زندہ تھے۔مسلمانوں نے ان سے فتویٰ پوچھا تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ کالج انگریزی میں جانا اور پڑھنا اور انگریزی زبان کا سیکھنا بموجب مذہب کے سبب درست ہے ، اس پر سیکڑوں مسلمان کالجوں میں داخل ہوئے ، مگر اس زمانے میں کالجوں کا حال ایسانہ تھا بلکہ ان میں تعلیم کا سرشتہ بہت اچھاتھا۔ ہر قسم کے علوم فارسی اور عربی وسنسکرت اور انگریزی پڑھائے جاتے تھے۔فقہ اور حدیث اور علم ادب پڑھانے کی اجازت تھی ، فقہ میں امتحان ہوتاتھا، سند یں ملتی تھیں کسی طرح کی ترغیب مذہبی نہ تھی، مدرس بہت ذی عزت اور معتبر اور ذی علم مقرر ہوتے تھے۔ مگرآخر کو یہ بات نہ رہی ، عربی کی قدر بہت کم ہوگئی اور فقہ اور حدیث کی تعلیم یکسر جاتی رہی ۔ فارسی بھی چنداں قابل لحاظ نہ رہی ، تعلیم کی صورت اور کتابوں کے رواج سے بالکلیہ تغیر پکڑا اردو اور انگریزی کا رواج بہت زیادہ ہوا جس کے سبب وہی شبہ کہ گورنمنٹ کو ہندوستان کے مذہبی عوام کا معدوم کرنا منظور ہے ، قائم ہوگیا۔ مدرس لوگ معتبر اور ذی علم نہ رہے وہی مدرسہ کے طالب علم کہ جنہوں نے ابھی تک لوگوں کی آنکھوں میں اعتبار پیدا نہ کیاتھا، مدرس ہونے لگے، اس لئے ان مدرسوں کا بھی وہی حال ہوگیا۔
ادھر تو دیہاتی مکاتب کالجوں کا یہ حال تھا کہ ان پر سب کو عیسائی مذہب کے رواج دینے کا شبہ ہورہاتھا کہ دفعتاً گورنمنٹ کی طرف سے اشتہار جاری ہوا کہ جو شخص سرکاری مدرسہ کا تعلیم یافتہ ہوگا اور فلاں فلاں علوم اور انگریزی زبان میں امتحان دے کر سند یافتہ ہوگا وہ نوکری میں سب سے مقدم سمجھا جائے گا۔چھوٹی چھوٹی نوکریاں بھی ڈپٹی انسپکٹروں کے سرٹیفکیٹ پر جن کو ابھی تک سب لوگ کالا پادری سمجھتے تھے، منحصر ہوگئیں اور ان غلط خیالات کے سبب لوگوں کے دلوں میں ایک غم کا بوجھ پڑگیا اور سب کے دل میں ہماری گورنمنٹ سے ناراضگی پیدا ہوگئی اور لوگ یہ سمجھے کہ ہندوستان کو ہر طرح بے ہاش اور محتاج کیا جارہاہے تاکہ مجبور ہو کر رفتہ رفتہ ان لوگوںکی مذہبی باتوں میں تغیر وتبدل ہوجائے اس زمانے میں تجویز ہوئی کہ قیدی جیل خانوں میں ایک ہی شخص کے ہاتھ کا پکا ہوا کھائیں جس سے ہندوئوں کا مذہب بالکل جاتارہتاتھا، مسلمانوں کے مذہب میں اگر چہ کچھ نقصان نہیں آتاتھا۔مگر اس کا رنج سب کے دل پر تھا کہ سرکار ہر ایک کا مذہب لینے پر آمادہ اور ہر طرح اس کی تدبیر میں ہے۔یہ سب خرابیاں ہورہی تھیں کہ دفعہ 1855میں پادری اے ایڈ منڈنے دارالامارت کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معززنوکروں کے پاس چٹھیاں بھیجیں جن کامطلب یہ تھا کہ اب تمام ہندوستان میں ایک عمل داری ہوگئی۔تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے سڑک کے سبب جگہ کی آمدورفت ایک ہوگی تومذہب بھی ایک ہوجاناچاہئے۔اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی ایک ہی مذہب والے عیسائی ہوجائو۔میں سچ کہتاہوں کہ ان چٹھیوں کے آنے کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے مارے اندھیرا چھاگیا۔پائوں تلے کی مٹی نکل گئی ، سب کو یقین ہوگیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ اب آگیاہے، اب جتنے سرکاری نوکرہیں پہلے ان کو کرسٹان ہوناپڑے گا اور پھر تمام رعیت کو سب لوگ بیشک سمجھتے تھے کہ یہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔ہندوستانی لوگ سرکاری اہل کاروں سے پوچھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی چٹھی آگئی؟اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تم بھی نوکری کے لالچ میں کرسٹان ہوجائو گے۔ان چٹھیوں نے ہندوستانی اہل کاروں پر یہاں تک الزام لگایا کہ جن کے پاس چٹھیاں آئی تھیں ،وہ شرمندگی اور بدنامی کے مارے چھپاتے تھے اور انکار کرتے تھے کہ ہمارے پاس تو نہیں آئی اور لوگ کہتے تھے کہ نہیں آئی تو اب آجائے گی کیا تم سرکار کے نوکر نہیں ہو؟ اگر سچ پوچھو تو یہ چھٹیاں تمام ہندوستانیوں کے شبہات کو پکاکرنے والی تھیں ۔چنانچہ انہوں نے کردیا اور اس کے مٹانے کی کوئی تدبیر کارگرنہ ہوئی۔کچھ عجیب نہ تھا کہ اس زمانہ میں کچھ برہمی اور تھوڑا بہت فساد ملک میں شروع ہوجاتا۔چنانچہ اس وقت کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے ، مگر جناب معلی القاب نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر بنگال نے بہت جلد خبر لی اور ایک اشتہار جاری کیا جس سے لوگوں کوکچھ تسلی ہوئی اور اضطراب دھیما پڑگیا۔مگر جیسا کہ چاہئے اس کا قلع وقمع نہ ہوا،لوگوں نے سمجھا کہ فی الحال یہ بات موقوف ہوگئی۔پھر کبھی قابو پاکر جاری ہوجائے گی۔
ان سب باتوں سے مسلمان- ہندوئوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ناراض تھے اس کا سبب یہ ہے کہ ہندواپنے مذہب کے احکام بطوررسم ورواج کے اداکرتے ہیں نہ کہ بطور مذہب کے احکام کے۔انہیں اپنے مذہب کے احکام اور عقائد اور وہ دلی واعتقاد ی بلتیں جن ر عاقبت کی نجات ان کے مذہب کے مطابق منحصر ہے ۔ مطلق معلوم نہیں ہے اور نہ ان کے برتائو میں ہیں ، اس وجہ سے وہ اپنے مذہب میں نہایت سست ہیں اور سوائے ان رسمی باتوں کے اور کھانے پینے کی ہر چیز کے اور کسی مذہبی عقیدہ میں پکے نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ان کے عقیدے کے خلاف کیسی ہی باتیں ہوتی رہیں انہیں غصہ نہیں آتا۔ان کے بر خلاف مسلمان کے عقائد کے لحاظ سے جو باتیں ان کے مذہب میںنجات دینے اور عذاب میں ڈالنے والی ہیں ،وہ بخوبی جانتے ہیں اور ان احکام کو مذہبی اور خدا کی طر ف سے آئے ہوئے احکام سمجھ کر کرتے ہیں اس لئے وہ اپنے مذہب میں پکے ہیں۔ان وجوہ سے وہ زیادہ ناراض تھے۔یہ ہیں وہ اسباب جن سے مسلمان انگریزی سے نفرت کرتے تھے۔مگر علما انہیں احتیاط کوملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی پڑھنے کے فتوے دیتے تھے۔
مضمون نگار سینئرصحافی ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS