کیا اسرائیل پر کوئی عالمی قانون نافذ نہیں ہوتا؟ : عبدالماجد نظامی

0
کیا اسرائیل پر کوئی عالمی قانون نافذ نہیں ہوتا؟ : عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

حماس کے حملہ کے بعد سے ہی اسرائیل ہسٹیریائی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیل کو حماس سے انتقام لینا ہے اور اس کے وجود کو ختم کرکے اپنے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو اس کو چاہیے کہ ایک ذمہ دار اسٹیٹ کی طرح برتاؤ کرے۔ فلسطین کے الاھلی اسپتال پر حملہ کرکے پانچ سو سے زائد افراد کا قتل کردینا اور بیشمار لوگوں کو زخمی کرنا اور وہاں پناہ گزیں ہزاروں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو خوف کی حالت میں مبتلا کردینا کسی جمہوری نظام پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ملک کو زیب نہیں دیتا۔ اسرائیل جس ہسٹیریائی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ہے، اس کی وجہ سے غزہ کے ایک ایک چپہ پر قہر برپا ہے۔ نہ زمین اور مکان کا کوئی حصہ محفوظ ہے اور نہ ہی اسکول، اسپتال، ایمبولینس میں موجود لوگ اور نہ ہی صحافیوں کی جانیں سلامت ہیں۔ لیکن الاھلی پر اسرائیل کے ذریعہ کیا جانے والا حملہ اب تک پوری فلسطینی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بھیانک واقعہ ہے۔ لوگ اس جگہ پر اس امید میں پناہ لینے گئے تھے کہ وہاں حملہ نہیں ہوگا کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگ کی حالت میں اسپتال پر حملہ کرنا جرم ہے۔ اسرائیل نے اس قانون کو پامال کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے لیے اسے قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جنگ بندی کا اعلان کیا جائے اور غزہ میں پانی کی ایک بوند بوند کے لیے ترسائے جا رہے 22 لاکھ فلسطینیوں تک امداد اور راحت کے سامان پہنچانے کا انتظام کیا جائے تاکہ زخمیوں کا علاج ہوسکے اور جو شہید ہوچکے ہیں، ان کو عزت کے ساتھ دفنایا جائے۔ اس کے بعد ایک بین الاقوامی تحقیقی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اسرائیلی جرائم کی نوعیت طے ہونے کے بعد اس کے بموجب سخت سزا دی جائے۔ اس دنیا کا مہذب طور پر برقرار رہنا اس بات پر منحصر ہے کہ تمام ممالک عالمی قوانین کی پاسداری کریں اور کسی بھی صورت میں ان کی خلاف ورزی کی کوشش نہ کریں۔ دوہرے معیاروں پر عمل کرکے کبھی بھی ایک معتدل معاشرہ کا وجود نہیں ہوسکتا۔ جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا تو اسرائیل اور مغربی میڈیا نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ پھیلا دیا کہ حماس جنگجوؤں نے چالیس بچوں کا قتل کیا ہے اور اسرائیلی عورتوں کی عصمت دری کی ہے۔ اس پروپیگنڈہ کو امریکہ نے بھی ابتداء میں جوں کا توں قبول کرلیا اور اس معاملہ میں حماس کی مذمت کر دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب حماس نے کیا ہوتا تو اسرائیل اور امریکہ سے قبل خود مسلم دنیا اس کی مذمت کرتی اور فلسطینی عوام بھی اس حرکت کو کبھی قبول نہیں کرتے لیکن اس کا کوئی ثبوت ابھی تک پیش نہیں کیا گیا ہے اور حماس نے اس کی تردید کی ہے۔ خود امریکہ نے اپنے بیان کو واپس لے لیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسرائیلی بچوں اور عورتوں پر مظالم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کھڑا کرکے اس قدر ہمدردی اور تعاون حاصل کرنے کا موقع اسرائیل نے تلاش کرلیا تو پھر آخر کیا بات ہے کہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کے سلسلہ میں اسی قسم کی ہمدردی اور تعاون کا اظہار امریکہ اور مغربی ممالک کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں؟ دنیا کا کون سا قانون اس دوہرے معیار کو جائز ٹھہرائے گا؟ کب تک فلسطینی زندگیوں کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک ہوتا رہے گا اور امریکہ و مغرب کی شہ پر اسرائیل بربریت کا مظاہرہ کرتا رہے گا اور اس کو اس کے جرائم کی سزا نہیں دی جائے گی؟ ایسا کیا جانا کسی معاشرہ کے لیے درست نہیں ہے۔ الاھلی اسپتال پر اسرائیلی حملہ کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے انٹلیجنس کے افسران نے یہ بات بالکل بجا طور پر کہی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کی دنیا ہر پل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف کمزور اور نہتھے فلسطینی ہیں اور دوسری طرف مہلک ترین ہتھیاروں اور وسائل حرب و ضرب سے لیس اسرائیل ہے۔ دونوں کے درمیان قوت کا کوئی توازن نہیں ہے۔ اس کے باوجود امریکی جنگی بیڑہ اور جدید ترین جنگی ہتھیاروں کی کھیپیں اسرائیل کی مدد کے لیے بھیجی جا چکی ہیں۔ دوہزار امریکی سپاہی اسرائیل میں بھیج دیے گئے ہیں اور اس کا اندیشہ ہے کہ جب غزہ پر اسرائیل زمینی حملہ شروع کرے گا تو اس کا ساتھ دینے کے لیے ان امریکی سولجروں کا استعمال بھی کیا جائے گا۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ اگر زمینی حملہ کا آغاز ہوا تو اس میں سب سے زیادہ عام فلسطینی شہری مارے جائیں گے۔ اسرائیل کی اس بات میں بالکل دم نہیں ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کی جانوں سے چھیڑچھاڑ نہیں کرے گا اور صرف حماس کے عناصر سے نپٹا جائے گا۔ غزہ پر اب تک کی بمباری سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی نظر میں فلسطینیوں کی زندگی کی کتنی وقعت ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو عرب خطہ میں غم و غصہ کی شدید لہر پھیل جائے گی۔ فلسطینی زندگیوں کے اکارت کیے جانے پر عرب ممالک میں کس قدر غصہ اور بے چینی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الاھلی پر اسرائیلی بربریت کے معا بعد ہی پورے مشرق وسطیٰ میں احتجاج کی صدا بلند ہونے لگی اور لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ یہ غصہ اور احتجاج صرف اسرائیل ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کے حلیفوں کے خلاف بھی ہے۔ اسرائیل کے حلیفوں میں چونکہ امریکہ سرفہرست ہے، اس لیے اس کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔ امریکی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی تائید سے اسرائیل جتنے بھی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، ان میں وہ بھی برابر کی شریک مانی جائے گی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیانات سے جمہور پسند اور انصاف پرور سماج کو سخت مایوس کیا ہے۔قوت کے نشہ میں امریکہ شاید اس وقت انصاف پسند لوگوں کی باتوں کو قبول نہ کرے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کا بوجھ اٹھا پانا بڑی سے بڑی قوت کے لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ معصوموں کا وہ خون ہے جس کا اثر صدیوں تک زائل نہیں ہوتا ہے۔ آج اسرائیل نے صرف فلسطینی معصوموں کو ہی خاک و خون میں نہیں تڑپایا ہے بلکہ پوری عالمی برادری اور ان عالمی قوانین کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں جن کی وجہ سے انسانی سماج کو مہذب مانا جاتا ہے۔ خود امریکہ کی تذلیل کی ہے کیونکہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دورہ پر آنے والے تھے۔ اس دورہ سے محض چند گھنٹے قبل یہ حملہ کرکے بائیڈن کو شرمندہ کیا گیا ہے۔ اس حملہ کی پاداش میں فلسطینی صدر محمود عباس اور شاہِ اردن نے بائیڈن کے ساتھ اپنی میٹنگ ختم کر دی ہے جس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی بھی ان سے ملنے والے تھے۔سچ یہی ہے کہ اسرائیل کو نہ تو عالمی قوانین کی فکر ہے اور نہ ہی اس کے اپنے حلیفوں تک کی پروا ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس کو اس کے جرائم کے لیے ذمہ دار مانا جائے اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ قانون پر مبنی عالمی معاشرہ کا وجود ممکن ہوسکے اور واضح طور پر اس کو پیغام دیا جائے کہ فلسطینی عوام کا خون اسرائیل کے ہاتھوں اس بے دردی سے بہایا جائے، یہ منظور نہیں ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS