تالاب بچیں گے تو کم آئیں گے زلزلے: پنکج چترویدی

0
تالاب بچیں گے تو کم آئیں گے زلزلے: پنکج چترویدی

پنکج چترویدی
4؍اکتوبر 2023 کو تقریباً پورے شمالی ہند کے ساتھ دہلی-این سی آر میں 15 سیکنڈ تک زمین لرزی۔ یہ جھٹکا ریختر پیمانے پر 6.2 کا تھا، جسے انتہائی سنگین مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد گزشتہ 15 دنوں میں دہلی کے آس پاس تین بار اور زلزلہ آچکا ہے۔ نیشنل سینٹر فار سیسمولوجی (این سی ایس) نے دہلی این سی آر میں زلزلہ کے گزشتہ 63 سال کے اعداد و شمار کے جائزے میں پایا ہے کہ تجاوزات و غیرقانونی قبضوں کی بھینٹ چڑھ رہے آبی ذخائر کے اوپر عمارتیں بھلے کھڑی ہو گئی ہوں لیکن ان کے نیچے پانی میں ابھی بھی زلزلے کے جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ این سی ایس کے مطابق یکم جنوری، 1960 سے لے کر 31 مارچ، 2023 کے درمیان 63 سال میں دہلی-این سی آر میں مرکز والے کل 675 زلزلے آئے ہیں لیکن 2000 تک 40 سال میں جہاں صرف 73 زلزلے درج کیے گئے وہیں اس کے بعد 22 سال میں 602 زلزلے ریکارڈ کیے گئے۔ 2020 میں دہلی اور اس کے آس پاس کے دائرے میں کل 51 بار زمین لرزی ہے۔
ہندوستان کے کل رقبے کا 54 فیصد زلزلہ کے ممکنہ علاقے کے طور پر نشان زد ہے۔ دہلی کو خطرے کے لیے طے زون 4 میں رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں زلزلہ آنے کا اندیشہ سنگین سطح پر ہے۔ زلزلہ املاک اور جانی نقصان کے نقطۂ نظر سے سب سے خوفناک قدرتی آفت ہے۔ اول تو اس کی درست پیشین گوئی ممکن نہیں، دوم اس سے بچنے کا کوئی بہتر طریقہ نہیںہے۔ محض آگاہی اور اپنے اطراف اس طرح کی تیاری کرنا کہ زمین کسی بھی وقت ہل سکتی ہے، بس یہی ہے اس کا واحد حل۔ ہماری زمین جن سات ٹیکٹونک پلیٹوں پر ٹکی ہوئی ہے، اگر ان میں کوئی حرکت ہوتی ہے تو زمین لرز اٹھتی ہے۔
این سی ایس کے مطابق دہلی-این سی آر میں آنے والے زلزلے اراولی پہاڑی سلسلے کے نیچے بنے چھوٹے چھوٹے فالٹوں کی وجہ سے آتے ہیں جو کبھی کبھار ہی سرگرم ہوتے ہیں۔ یہاںپلیٹ ٹیکٹونکس کا عمل بھی بہت سست ہے۔ ابتدا میں زلزلے کے جھٹکے بہت عام تھے جن کی شدت 1.1 سے 5.1 تک تھی لیکن جیسے جیسے اس بڑے شہر میں پانی کے ذخیرے خشک ہونے شروع ہوئے، 2000 کے بعد زلزلوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر جمنا کے خشک ہونے اور اس کی بنجر زمین پر تعمیرات نے زلزلے کی وجہ سے نقصان کے اندیشوں کو قوی کر دیا ہے۔ جمنا کئی لاکھ سال پرانی ندی ہے اور زمین کے اندر بھی پیلیو چینل یعنی اندرونی پانی کے راستے ہیں اور پانی کے ان راستوں کے خشک ہونے اور تباہ ہونے کی وجہ سے زمین کے دھنسنے اور لرزنے کے اندیشے میں اضافہ ہواہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان آسٹریلین پلیٹ پر ٹکا ہوا ہے اورہمارے یہاں زیادہ تر زلزلے اس پلیٹ کے یوریشین پلیٹ سے ٹکرانے کی وجہ سے آتے ہیں۔ زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے زمین میں دباؤ والی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس توانائی کے اب انڈین پلیٹ کی شمالی سمت میں بڑھنے اور فالٹ یا کمزور زونز کے ذریعے یوریشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے جمع ہوئی ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمالیائی سیسمک زون میں ہندوستانی پلیٹ کے ساتھ یوریشین پلیٹ ٹکراتی ہے اور اس کی وجہ سے پلیٹ باؤنڈری پر تناؤ کی توانائی جمع ہوجاتی ہے جس سے کرسٹل چھوٹا ہو جاتا ہے اور چٹانیں مسخ ہوتی ہیں۔ یہ توانائی زلزلوں کی صورت میں کمزور زونوں اور فالٹوں کے ذریعے سامنے آتی ہے۔
اگرچہ کوئی زلزلہ کب، کہاں اور کتنی توانائی (میگنی ٹیوٹ) کے ساتھ آ سکتا ہے، اس کی پیشین گوئی کے لیے ابھی تک کوئی بہتر ٹیکنالوجی ڈیولپ نہیں ہو پائی ہے لیکن کسی علاقے کی انتہائی حساسیت کو وہاں آنے والے سابقہ زلزلوں، دباؤ کے بجٹ کا حساب، فعال فالٹوں کی نقشہ سازی وغیرہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ آج جہاں زمین کثرت سے لرزتی ہے وہاں زمینی سطح کے ڈھانچے، جیومیٹری اور فالٹس اور ریجز کی تشکیل کی تحقیقات کے لیے ارضیاتی مطالعات کو پوری طرح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ نرم مٹی ڈھانچے کی بنیادوں کو سہارا نہیں دے پاتی، زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بیڈراک یا سخت مٹی کے سہارا والے ڈھانچوں میں کم نقصان ہوتا ہے۔ اس طرح نرم مٹی کی موٹائی کے بارے میں جاننے کے لیے بھی اسٹڈیز ضرورت ہے۔ فعال فالٹوں کی نشاندہی کی جانی ہے اور لائف لائن ڈھانچے یا دیگر انفرااسٹرکچر کو نزدیک کے فعال فالٹوں سے محفوظ رکھنے اور انہیں بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس(بی آئی ایس) کے رہنما خطوط کے مطابق تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
قومی راجدھانی دہلی کے سوا تین کروڑ آبادی والے علاقے کا چالیس فیصد علاقہ اَن آتھرائزڈ ہے تو 20 فیصد کے آس پاس بہت پرانی تعمیرات ہیں۔ بقیہ رہائش گاہوں میں سے بمشکل پانچ فیصد تعمیر یا اس کے بعد یہ تصدیق کی جا سکی کہ یہ زلزلہ مزاحم ہے۔ باقی ہندوستان میں بھی رہائشی کمپلیکس کی حالت اس سے مختلف نہیں ہے۔ اول تو لوگ اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے کہ زلزلے کے لحاظ سے ان کا علاقہ کتنا حساس ہے، دوم ان کا لالچ ان کے گھروں کو ممکنہ موت کے گھروں میں تبدیل کر رہا ہے۔ کثیر المنزلہ عمارتیں، چھوٹے سے زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک کے اوپر ایک ڈبے جیسا ڈھانچہ، کسی انجینئر کے مشورے کے بغیر بنے کیمپس، چھوٹے سے گھر میں ہی تنگ جگہ میں رکھا ہوا بہت سا سامان اور فرنیچر۔۔۔ زلزلے کے خطرے سے بچنے کے انتباہ کو نظر انداز کرنے کی مجبوری بھی ہیں اور غفلت بھی۔ ولینریبلٹی کونسل آف انڈیاکی بلڈنگ میٹریل اینڈ ٹیکنالوجی پروموشن کونسل کے ذریعے شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہلی میں 91.7 فیصد گھروں کی دیواریں پکی اینٹوں سے بنی ہیں جبکہ کچی اینٹوں سے 3.7 فیصد گھروں کی دیواریں بنی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کچی یا پکی اینٹوں سے بنی عمارتوں میں زلزلوں کے دوران سب سے زیادہ تباہی ہوتی ہیں۔
نیشنل جیو فزیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این جی آر آئی)، حیدرآباد کی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زلزلوں کی ایک بڑی وجہ زمین کی کوکھ سے پانی کا اندھا دھند نکالا جانا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق زمینی پانی زمین کے اندر لوڈ یعنی ایک بوجھ کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس بوجھ کی وجہ سے فالٹ لائنوں میں بھی توازن برقرار رہتا ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ملک کے جن علاقوں میں کبھی کبھار زمین لرزتی ہے، ان سبھی شہر، اضلاع میں پانی کے روایتی وسائل جیسے تالابوں، جھیلوں، باوڑیوں، چھوٹی ندیوں کو سیراب رکھنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی آج ضرورت ہے کہ شہروں میں آبادی کی کثافت کو کم کیا جائے، زمین پر مٹی کی طاقت کی پیمائش کیے بغیر کثیر المنزلہ عمارتیں کھڑی کرنے اور بیس منٹ بنانے پر پابندی عائد کی جائے۔زیر زمین پانی زیادہ نکالے جانے پر سختی کی جائے، اس کے ساتھ ہی ملک کے زلزلے کے اندیشوں والے علاقوں میں تمام گھروں میں زلزلہ پروف ریٹروفٹنگ کروائی جائے۔ سب سے اہم بات کہ اپنے روایتی آبی وسائل کو خشک ہونے سے ضرور بچایا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS