کیا جام کے جال کا کوئی مداوا ہے؟: پروفیسر عتیق احمدفاروقی

0
image:livehindustan.com

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سڑک جام جیسا مسئلہ پہلے بڑے شہروں کے حصہ میں آتاتھا ، چھوٹے شہر وقصبے اس سے آزاد تھے، مگراب چھوٹے موٹے شہر بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ لکھنؤ ،پٹنہ، رانچی اوردہرادون جیسے متوسط درجہ کے شہروں میں بھی سڑکوں پر گاڑی رینگتی نظرآتی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ جو چوک چوراہے کبھی ان شہروں کی شناخت ہوا کرتے تھے آج وہ جام کے بدنام مرکز بن گئے ہیں۔ بڑے شہروں میں الیویٹڈ روڈ ، فلائی اوور ، انڈر پاس جیسی نئی تعمیرات سے جام کے مسئلے کا کچھ حدتک حل نکالاجاسکتاہے، نکالاجاتابھی ہے، مگر متوسط چھوٹے شہربڑے پیمانے پر ایسا نہیں کرپارہے ہیں۔ پھران شہروں میں جام کی نوعیت بھی الگ الگ ہے۔
ہندوستان میں سڑک جام کا مسئلہ وسیع ہے ۔ دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔عموماً سڑکوں کی بدحالی اور منظم نقل وحمل کی غیرموجودگی کے سبب ایساہوتاہے۔ اپنے یہاں سڑکوں کی مرمت ہی تبھی کی جاتی ہے جب وہ دھنستی یا ٹوٹتی ہے جبکہ یہ کام باضابطہ مستقل طور پر ہوناچاہیے۔ حالانکہ فٹ پاٹھ کا نہ ہونا یا اس پر تجاوزات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے سبب پیدل چلنے والے سڑکوں پرچلنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔ سڑک جام ہمیں کئی طرح سے پریشان کرتاہے۔ اس سے شہروں کی آب وہوامیں تو آلودگی پیدا ہوتی ہی ہے ، معیشت پر بھی منفی اثرپڑتاہے۔ اندازہ ہے کہ ہندوستان میں سڑک کے سبب ہونے والے منفی اثرات سے ملک کو 40.7ارب ڈالر کا نقصان ہوتاہے ۔ اتناہی نہیں نقل وحمل وزارت کے ایک اعدادوشمار کے مطابق خصوصاً جام سے سال 2021ء میں دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں میں تقریباً 67ہزار حادثات پیش آئے، جن میں پندرہ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانیں گوائیں جبکہ 58ہزار سے زیادہ شدید طور پر زخمی ہوئے۔
بڑے شہروں جیسے مسائل اب لکھنؤ،پٹنہ ، رانچی اورجمشید پور جیسے متوسط درجہ کے شہروں میں بھی دکھنے لگے ہیں۔ یہاں بھی غیرقانونی کالونیوں میں بے ترتیب اضافہ ہورہاہے۔ شہری منصوبہ کی غیرموجودگی میں چھوٹی چھوٹی گلیاں بن جاتی ہیں ، جو بڑی سڑکوں کو متاثرکرتی ہیں۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ عموماً جب کبھی پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کی بات اٹھتی ہے تو ہرشہر میٹرو مانگنے لگتاہے، مگر میٹرو کے بجائے رہائش اورشہری ترقی وزارت کے ذریعہ جاری رہنما ہدایات کا استعمال زیادہ عملی ہے ، جس میں الگ الگ شہروں کی ضرورتوں کے مدنظر الگ الگ پبلک ٹرانسپورٹیشن کی توسیع کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ نقل وحمل ذرائع بس ، لائٹ ریل ٹرانزٹ (ایل آرٹی )، مونوریل ، میٹرو کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ رہائش اورشہری ترقی وزارت کے ذریعہ جاری قومی نقل وحمل شہری پالیسی کی طرح ریاستیں بھی الگ الگ پالیسی بنائیں ، جو شہروں کی اپنی خصوصیات کے مطابق ہوں۔ متوسط اورچھوٹے شہروں میں نقل وحمل کے نظام کی بھی بھاری کمی ہے۔
ہرایک لاکھ آبادی پر چالیس سے ساٹھ پبلک بسوں کا ہونا معیاری سمجھاجاتاہے، لیکن لکھنؤ میں یہ اعدادوشمار محض چھ بسوں کا ہے۔ بنگلورو میں ہرایک لاکھ آبادی پر زیادہ سے زیادہ پیتالیس بسیں ہیں۔ سرکاری ونجی بسوں کو اگر ملابھی دیں تو اپنے ملک میں قومی سطح پر ایک لاکھ کی آبادی پر محض چوبیس بسیں دستیاب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک طرف سڑکیں چوڑی کرنی ہوں گی ، فلائی اوور یا الیویٹڈ روڈ بنانے ہوں گے، تو دوسری طرف نقل وحمل نظام کا بھی مناسب انتظام کرناہوگا۔ ان کاموں میں وسائل کی کمی کوئی مسئلہ نہیں ۔ مسئلہ انتظام اورنفاذ کے محاذ پر ہے۔
سڑک جام سے نمٹنے کیلئے عام لوگوں کی ذہنیت کوبھی پست کرنا ہوگا۔یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ممبئی میں آدھی سے زیادہ سڑکوں پر ذاتی کاروالوں کا قبضہ ہے جبکہ 28فیصد شراکت موٹرسائیکل والوں کی ہے۔ پٹنہ ،لکھنؤ،رانچی جیسے شہروں کی تصویر اس سے الگ نہیں ہے یہاں تک کہ دوردراز قصبوں میں بھی اب بڑی بڑی گاڑیاں دکھنے لگی ہیں جبکہ وہاں سڑکیں ایک لین کی ہیں۔
گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی بڑھتی خوشحالی ہے جو ایک لحاظ سے خوش آئندبات ہے، لیکن پبلک نقل وحمل کی غیرموجودگی میں وہ گاڑیاں خریدنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدورفت آرام دہ ہو۔ اس ذہنیت کو ہمیں ختم کرناہوگا جس کے لئے پبلک نقل وحمل کے کافی متبادل لوگوں کو دستیاب کرانے ہوں گے۔ ایسا کرنا صرف چھوٹے اورمتوسط درجہ کے شہروں میں نہیں ، بلکہ بڑے شہروں میں بھی فائدہ مند ہیں۔ رہی بات سڑکوں کو چوڑا کرنے کی ، تو ٹرانسفریبل ڈیولپمنٹ رائٹس (ٹی ڈی آر)جیسی اسکیم ہمارے کام آسکتی ہے۔ یہ اس نظریہ پر مبنی ہے کہ لوگوں سے ان کی زمین کا کچھ حصہ سڑک کی تعمیر میں لیاجائے اوربدلے میں ان کو کچھ مراعات دی جائیں۔مثلاً جو اپنی زمین عوامی مفاد میں چھوڑے گا ، اسے اپنے مکان میں ایک منزل فاضل بنانے کی اجازت دی جائے گی۔ علاوہ ازیں سڑک کے فروغ کیلئے مقامی لوگوں پر کچھ ٹیکس بھی لگائے جاسکتے ہیں اور یہ ایک متبادل نوتعمیر اسکیم ہوسکتی ہے جس کے تحت دہلی کے مجوزہ ماسٹرپلان میں اس اسکیم کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں زمینوں کو پی پی پی کے تحت فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ مہاراشٹرمیں دھاراوی علاقہ میں بھی اسی طرح نئی تعمیر ات کی جارہی ہیں۔ دوسرے شہر بھی ایسا کچھ کرسکتے ہیں۔ اس سے سڑکوں کیلئے زمین مل جائے گی اورشہر بھی صاف ستھرے ہوجائیں گے ۔
نقل وحمل کے نظم کیلئے احمدآباد جیسا تجربہ کیاجاسکتاہے، جس نے بسوں کیلئے الگ لین کی تعمیر کی ۔ حالانکہ دہلی میں یہ بس ریپٹ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی ایس )کامیاب نہیں ہوسکا، لیکن متوسط وچھوٹے شہروں میں ایسا کیاجاسکتاہے۔ ممکن ہوتو وہاں کچھ سڑکوں کو ’سنگل لین ‘بھی کیاجاسکتاہے ، یعنی اس پر صرف ایک طرف جانے والی سواری چلے گی۔ نوئیڈا اورگروگرام میں کچھ علاقوں میں یہ نظام بخوبی چل رہاہے ۔ جام کی ایک وجہ آبادی کو بھی بتایاجاتاہے، پر یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ یہاںمنصوبہ ونفاذ کا مسئلہ ہے۔ اگر شہر درشہر جائزہ لیاجائے اور اس کے مطابق طریقے اپنائے جائیں ، تو ہندوستان کافی حدتک سڑک جام کے مسئلے سے چھٹکارہ پاسکتاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS