شاہد زبیری
آئندہ سال فروری 2022میں ہونے والے یوپی سمیت5 صوبوںکے اسمبلی انتخابا ت میں جو سیاسی منظرنامہ ابھر رہا ہے، اس سے ظا ہر ہو تاہے کہ بی جے پی کی سیاسی زمین اس کے قدموں کے نیچے سے کھسک رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہو تا ہے کہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم نریندر مودی کئی بار یوپی میںآچکے ہیں،ریلیاںاوریوپی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرچکے ہیں جن میں9 میڈیکل کالج بھی شامل ہیں۔اپوزیشن پارٹیاں ان منصوبوں کو ہوائی منصوبوں کا نام دے رہی ہیں، الزام ہے کہ جن میڈیکل کالجوں کا وجود ہی نہیں ان کا بھی افتتاح کرا دیا گیا، اسی لیے اپوزیشن پارٹیاں اس کو الیکشن اسٹنٹ بتا رہی ہیں ۔بی جے پی کے لیے جہاں کوروناوبا کے دوران دلدوز واقعات درد ِ سر بن سکتے ہیں، وہیں اپوزیشن پارٹیاں مہنگا ئی، بیروز گاری کے علاوہ رسوئی گیس،پٹرول ڈیزل میں لگی آگ اور کسانوں میں پنپ رہے غصہ،دلتوں کے ساتھ ہو نے والی زیادتیاں،مسلم اقلیت کے خلاف بنا یا جا رہا خوف اور دہشت کا ماحول، پولیس کی ڈنڈا شاہی اور بیجا طاقت کا استعمال بی جے پی مخالف جماعتوں کے لیے ماحول کو سازگار بنا رہا ہے، اتنا ہی نہیں او بی سی زمرہ میں آنے والی برادریوں کی بی جے پی اور اس کی سرکاروں سے ناراضگی یہ ساری باتیں بی جے پی کو دوبارہ سرکار بنا نے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہر چند کہ ابھی کسی طرح کی کوئی ایسی لہر نہیں جس کو کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف بتا یا جاسکے لیکن حکمراں جماعت بی جے پی کے خلاف بہت کچھ ہے جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں چاہیں تو اٹھاسکتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں خاص طور پر سماجوادی پارٹی، کانگریس، بی ایس پی اور لوک دل جیسی جماعتیں ان مسائل کو کیسے انتخابی ہتھیا ر بنا تی ہیں، لیکن بی جے پی مخالف ان جماعتوں کا انتشار پارٹی کے لیے پلس پوائنٹ ہے۔ کانگریس اور بی ایس پی کے رویہ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں ’اکیلا چلو‘کی پالیسی کے تحت میدان میں ہیں جبکہ سماجوادی پارٹی مغربی یوپی میں لوک دل اور چندر شیکھر آزاد کی پارٹی آزاد سماج پارٹی سے اور مشرقی یوپی میں بھی پسماندہ برادریوں کی نمائندگی کرنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیوںکے ساتھ سیاسی تال میل کررہی ہے جو گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ تھیں ۔اس کو سماجوادی پارٹی کے حق میں نیک فال سمجھا جا رہا ہے ۔
مغر بی یوپی میں جہاں لوک دل اورچندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی کے ساتھ سماجوادی پارٹی کے انتخابی اتحاد کو قریب قریب طے سمجھا جا رہا ہے، سیٹوں کے ایڈ جسمنٹ کا کام جاری ہے،کسانوں کی تحریک اور کسانوںکی ہمدردیاں بھی سماجوادی پارٹی اور لوک دل کے ساتھ صاف نظر آرہی ہیں۔ مغربی یوپی کی اس جاٹ بیلٹ میں 2017میں بی جے پی کو جو بڑی کامیابی ملی تھی، وہ ان کی بدولت ہی ملی تھی جس نے یو پی میں بی جے پی کو حکومت بنا نے میں بڑی مدد کی تھی لیکن اس مرتبہ لوک دل کا جاٹ اور کسان ووٹ بی جے پی کے خلاف ہے، مسلمان پہلے سے سماجوادی کے ساتھ ہیں۔یہاں تیتروں قصبہ میں 10اکتوبر کی اکھلیش یادو کی مغربی یو پی کی پہلی ریلی میں زبردست بھیڑ اور 16اکتوبر کو گنگوہ قصبہ میںجینت چودھری کی ریلی کے علاوہ دیگر ریلیوں میں امڈ نے والی بھیڑ سے جو اشارے مل رہے ہیں، وہ بی جے پی کے لیے خطرہ کی گھنٹی سمجھے جا رہے ہیں ۔
مشرقی یو پی میں با اثر سمجھی جا نے والی کرمی اور راج بھر برادریوں کے لیڈر لال جی ورما، اوم پرکاش راج بھر، رام اچل راج بھر اور سکھ دیو راج بھر کی پارٹیوں سمیت نصف درجن سے زائد پارٹیوں کے ساتھ بننے والا محاذ جس میں سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی، جنوادی پارٹی، این سی پی، مہان دل اور ترنمول کانگریس وغیرہ شامل ہیں، سماجوادی پارٹی کو بی جے پی کے خلاف مضبوط بنا رہی ہیں۔ 27اکتوبر کو مئو ضلع کے ہل دھر پور میں اوم پرکاش راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے 19ویں یومِ تاسیس کے موقع پر مہا پنچایت کے نام سے ہو نے والی ریلی میں جب اکھلیش یادو نے اپنے سنکلپ مورچہ کے ساتھ سہیل دیو پارٹی کے اتحاد کا اعلان کیا تو بھیڑ نے گرمجوشی کے ساتھ اس اعلان کی تائید کی۔ اس ریلی میں اکھلیش یادو نے جہاں بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا اور بی جے پی سرکار بننے پر وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یو گی کے ذریعہ وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کو گنگا جل سے دھلواکر پوتر کیے جا نے کے واقعہ کا نام لیے بغیر اس طرف بھی اشارہ کیا اور اس واقعہ کو پسماندہ برادریوں کے وقار کا سوال بنا یا تو صاف ظاہر تھا کہ اکھلیش یادو پسماندہ برادریوں کے وقار کو بھی ایشو بنا ئیں گے، اسی کے ساتھ انہوں نے 400سیٹوں پر کا میابی کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔اس ریلی کے اسٹیج سے جہاں یو گی سرکار میں پسماندہ برادریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا شکوہ کیا گیا، دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے علاوہ دال آٹے سے لے کر رسوئی گیس، ڈیزل اور پٹرول کے داموں میں اضافہ کے سوال کو بھی اٹھا یا گیا اور کورو نا میں دواؤں کی قلت اور لاشوں کی بے حرمتی جیسے ایشوز بھی اٹھا ئے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجوادی پارٹی کا سنکلپ مورچہ ان ایشوز پر بی جے پی کو گھیرنے کی پلاننگ کرچکا ہے، اسی لیے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی میں سیدھی ٹکر کے امکانات زیادہ ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہی بتائی جارہی ہے کہ پسماندہ برادریاں جو کبھی کانشی رام کے اس نعرہ کے ساتھ کہ جس کی جتنی بھاگیداری اس کی اتنی حصہ داری نے ہاتھی پر سوار کیاتھا اور ملائم سنگھ یادو نے سماجی انصاف کے نام پر ایک چھتری کے نیچے لادیا تھا اور 17پسماندہ برادریوں کو ریزرویشن کے زمرہ میں شامل کرنے کا حوصلہ دکھایا تھا لیکن بعد میں ان برادریوں کی اکثریت 2017میں بی جے پی کے ساتھ چلی گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ ان برادریوں کو پھر سے سماجوادی پارٹی کی چھتری کے نیچے لانے کے لیے گزشتہ 5برس میں اکھلیش یادو نے کافی ہوم ورک کیا ہے جس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ سماجوادی پارٹی پھر سے اقتدار میں لوٹ آئے اور اکھلیش یادو کے سر پر وزیراعلیٰ کا تاج رکھا جا ئے۔یہ اکھلیش یادو کی سیاسی سوجھ بوجھ کا بھی امتحان ہے۔سماجوادی پارٹی کی مقبو لیت پر بی ایس پی سپریمو مایا وتی کا یہ تبصرہ بھی اس کی چغلی کھاتا ہے کہ میڈیا جان بوجھ کر سماجوادی پارٹی اور بی جے پی میں آمنے سامنے کی ٹکر کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے ۔
کانگریس اور بی ایس پی بھی ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔ کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری اور پارٹی کی یوپی انچارج پرینکا گاندھی واڈرا اس مرتبہ جی جا ن سے کانگریس کے تنِ مردہ میں جان پھونکنے میں لگی ہیں اورسڑکوں پر ہیں، پرتگیہ یاترا کے ذریعہ وہ میڈیا میں چھا رہی ہیں، اگر زمین پر بھی کانگریس اپنے وجود کومنوانے میں کامیاب رہی تواس کا نقصان سماجوادی پارٹی کو اور فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔ یہ نریٹو بھی یوپی کے سیاسی منظر نامہ میں سامنے آرہا ہے۔ کانگریس پر سافٹ ہندوتوکا ایجنڈہ استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔ اس سوال پر پریس کانفرنس میں سلمان خورشید سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سہارا لیتے ہوئے نظر آئے اور ہندو مذہب اور ہندوتو کو انہوں نے ایک ہی پلڑے میں رکھا ۔
بی ایس پی کا جہاں تک سوال ہے، اس مرتبہ بھی برہمنوں کی شرن میں نت مستک نظر آرہی ہے ۔قومی جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا نے ایو دھیا سے ترشول ہاتھ میں لے کر پارٹی کی انتخابی مہم کا آغازکیا اور یوپی میں جگہ جگہ برہمن کانفرنسوں کا انعقاد پربدھ کانفرنس کے نام سے کررہی ہے۔ لکھنؤ کی ایسی ہی کانفرنس میں بی ایس پی سپریمو برہمنوں کو شیشہ میں اتارتی نظر آئیں۔ بی ایس پی اس مرتبہ بھی اپنے کارڈ جاٹو براداری اور برہمنوں کے سہارے اقتدار تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ الزام ہے کہ مایا وتی نے کانشی رام کی بی ایس پی کو منو وادی طاقتوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لال جی ورما اور اوم پرکاش راج بھر جیسے کانشی رام کے ساتھی پہلے بی جے پی میں اور اب سماجوادی پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور مغربی یوپی کے بی ایس پی کے کئی قدآور اورمسلم لیڈر سماجوادی پارٹی کا دامن تھام چکے ہیں اور کچھ لیڈر پر تول رہے ہیں۔ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے تک کیا منظر نامہ ابھرتا ہے سب کی نظریں اس پر لگی ہیں۔بی جے پی بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان میں ہے اور وہ پولرائزیشن کا آزمودہ نسخہ پھر استعمال کررہی ہے اور انتخابات سے عین پہلے سماجوادی پارٹی کی سابقہ سرکار میں کار سیوکوں پر چلائی گئی گولی، فرقہ وارانہ فسادات، ہند-پاک کر کٹ کاجشن منائے جانے، لو جہاد، تبدیلیٔ مذہب جیسے ایشوز کواچھا لا جارہا ہے لیکن اس سارے سیاسی منظر نامہ میں سیکو لر پارٹیوں کے ایجنڈے میںمسلمان کہیں نظر نہیں آتے، ہر پارٹی ان کے نام اور ان کے مسائل پر لب کھولتے ہوئے ڈر تی ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے مجلس اتحاد المسلمین جس کا کوئی زمینی وجود یوپی میں کہیں نظر نہیں آتا، اس کے قائد اسدالدین اویسی میدان میں کود پڑے ہیں، وہیں غیر بی جے پی پارٹیاں اویسی پر بی جے پی سے ساز باز کا الزام لگا رہی ہیں۔rvr