بہار میں اپوزیشن مہاگٹھ بندھن کا مستقبل؟

0

صبیح احمد

گزشتہ سال کے بہار اسمبلی الیکشن میں توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے سب کو حیرت میں ڈالنے والے 5 سیاسی پارٹیوں کا مہا گٹھ بندھن ایک سال سے کم مدت میں ہی ٹوٹنے کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں این ڈی اے کی کلین سوئپ کے بعد اسمبلی الیکشن میں زبردست واپسی کرتے ہوئے مہا گٹھ بندھن اکثریت حاصل کرنے سے صرف 10 سیٹ سے پیچھے رہ گئی تھی۔ اس کارکردگی سے اپوزیشن خیمے میں 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے حوالے سے کا فی امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں لیکن گزشتہ دنوں اچانک کانگریس پارٹی کے بہار انچارج بھکت چرن داس کے اس بیان سے تمام امیدوں پر تقریباً پانی پھر گیا کہ آئندہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس پارٹی ’تمام 40 سیٹوں‘ پر الیکشن لڑے گی۔ انہوں نے ایک جونیئر اتحادی (آر جے ڈی) کے ذریعہ اتحاد کا ’دھرم‘ نبھانے میں ناکام رہنے کا بھی الزام لگایا۔
دراصل معاملہ تارا پور اور کشیشور استھان حلقوں کے ضمنی الیکشن میں امیدواروں کے اعلان سے شروع ہوا۔ آر جے ڈی نے کانگریس کو اعتماد میں لیے بغیر ہی ان دونوں سیٹوں کے لیے یکطرفہ طور پر اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ یہ بات کانگریس کے لیڈروں کو کافی ناگوار گزری اور کچھ دنوں بعد کانگریس کی جانب سے بھی دونوں سیٹوں کے لیے الگ سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا گیا۔ کانگریس اور آر جے ڈی کے درمیان برسوں سے آزمودہ اس اتحاد میں موجودہ دراڑ کی وجہ بظاہر تو مذکورہ ضمنی انتخابات میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہے لیکن درحقیقت معاملہ کچھ اور ہی معلوم ہوتا ہے۔اس چپقلش کی وجہ کنہیا کمار کی کانگریس میں شمولیت اور ان کے ساتھ تیجسوی یادو کی پرانی ’رنجش‘ بتائی جاتی ہے۔ حالانکہ تیجسوی یادو ذات پات کی سیاست میں کنہیا کمار سے کافی آگے ہیں لیکن جہاں تک تقریری صلاحیت کا سوال ہے، کنہیا کے سامنے تیجسوی کہیں نہیں ٹھہرتے۔ تیجسوی یادو کے ساتھ اپنے موازنہ کے سوال کا جواب کنہیا کمار بڑی ہوشیاری سے انکساری کے ساتھ یہ کہتے ہوئے دیتے ہیں کہ ’کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ ان (تیجسوی) کے ماں باپ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائر رہ چکے ہیں۔ میں زمین کی سطح سے شروعات کر رہا ہوں۔‘ مذکورہ ضمنی انتخابات میں مہم کے درمیان بہار کانگریس کمیٹی کے ہیڈکوارٹرس میں پارٹی ورکروں سے خطاب کے دوران کنہیا نے راہل گاندھی کی یہ کہتے ہوئے کافی تعریف کی کہ انہوں نے ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور ان جیسے لوگوں کو پلیٹ فارم دیا جبکہ ’دیگر لوگ بھی ہیں جو اپنے والدین کی جانب سے ملنے والی وراثت کے حوالے سے خود کو کافی غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔‘اس تبصرہ پر سامعین نے کافی تالیاں بجائیں اور اسے تیجسوی کی جانب اشارہ سمجھا گیا۔ اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو آر جے ڈی کبھی نہیں چاہے گا کہ کنہیا کمار کی کانگریس میں انٹری ہو کیو نکہ ان کے اندر تیجسوی یادو کے حریف کے طور پر ابھرنے کی تمام تر صلاحتیں موجود ہیں۔ بہار کی سیاست میں تیجسوی یادو اور چراغ پاسوان کے بعد کنہیا کمار تیسرے نوجوان سیاست داں ہیں جن میں بھیڑ اکٹھی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
دونوں نوجوان لیڈروں کے درمیان اس تلخی کا آغاز 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران اس وقت ہوا جب کنہیا کمار اپنے آبائی شہر بیگوسرائے کی لوک سبھا سیٹ پر مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے خلاف اپنا پہلا الیکشن لڑا تھا۔ اپنی جی توڑ کوششوں کے باوجود سی پی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے کنہیا کامیاب نہیں ہو سکے اور 4لاکھ سے زائد ووٹوں سے انہیں شکست ملی۔ اپنی اس شکست کے لیے کنہیا کمار آر جے ڈی کے امیدوار تنویر حسن کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ کنہیا کمار چاہتے تھے کہ بی جے پی کے امیدوار گری راج سنگھ کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے آر جے ڈی اس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے۔ ان کا جواز تھا کہ سیدھی ٹکر میں وہ بی جے پی امیدوار کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن آر جے ڈی کے صدر تیجسوی یادو نے ان کی صلاح نہیں مانی۔ انہوں نے کنہیا کے مشورے کو درکنار کرتے ہوئے اس سیٹ پر تنویرحسن جیسے مضبوط امیدوار میدان میں اتار دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انتخابی لڑائی سہ رخی ہو گئی۔ سکیولر ووٹ کنہیا کمار اور تنویر حسن کے درمیاں تقسیم ہو گئے اور اس کا بڑا فائدہ گری راج سنگھ کو ملا۔
حالانکہ کچھ لوگ موجودہ بحران کے حوالے سے کانگریس میں کنہیا کمار کی شمولیت کو فیکٹر نہیں مانتے۔ خاص طور پر کانگریس کی بہار اکائی کے لیڈروں کی شکایت رہی ہے کہ آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد سے کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی آگے ہونے والا ہے۔ ا ن کا جواز ہے کہ اس اتحاد کا فائدہ صرف اور صرف آر جے ڈی کے کھاتے میں جاتا ہے۔ لیکن کانگریس ہائی کمان اس پہلو پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ جیسے ہی یہ معاملہ سامنے آیا، کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بہار میں آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد پر منڈلانے والے کالے بادل کو چھانٹنے کے لیے فوراً ٹیلی فون پر آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو سے رابطہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ فعال سیاست میں طویل عرصہ بعد واپسی کرنے والے لالو یادو نے بھی سونیا گاندھی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ (سونیا) ملک گیر سطح کی پارٹی کی لیڈر ہیں اور انہیں ان تمام ہم خیال پارٹیوں کی میٹنگ بلانی چاہیے جو بی جے پی کے خلاف ہیں۔ آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد نے یہ بھی کہا ہے کہ پارٹی کے ساتھ کانگریس کا اتحاد جاری رہے گا۔ لالو پرساد نے کہا کہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کیلئے سب کو متحد ہونا ہے۔ یہ بھی کہا کہ نومبر میں سبھی اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ بلانے کی بات سونیا گاندھی نے کہی ہے۔
سونیا گاندھی نے فون تب کیا جب اتحاد ٹوٹنے کی خبریں آنے کے بعد لالو نے کانگریس کے خلاف کچھ سخت تبصرے کیے۔ لالو نے کانگریس کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے انتخابی پارٹنر کے طور پر ملک کی سب سے پرانی اور بڑی پارٹی کی افادیت پر بھی سوال اٹھادیا۔ انہوں نے برجستہ کہا کہ ’کیا ہوتا ہے کانگریس کا گٹھ بندھن،‘ یعنی اس اتحاد سے کیا فائدہ ہے؟ ’ہم لوگوں کو ایک سیٹ اسے (کانگریس کو) دے دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے؟‘ آر جے ڈی نے کانگریس کو 2020 کے بہار اسمبلی الیکشن میں اس کی انتہائی خراب کارکردگی بھی یاد دلائی جب وہ اتحاد میں سیٹوں کی تقسیم کے تحت ملنے والی 70 سیٹوں میں سے 20 سے بھی کم سیٹوں پر ہی کامیاب ہو سکی تھی۔ قابل غور بات ہے کہ کانگریس گزشتہ سال کے اسمبلی الیکشن میں کشیشور استھان سیٹ ہار چکی تھی اور اس بار ضمنی الیکشن میں اپنی جیت درج کرنے کے لیے یہ سیٹ آر جے ڈی سے پھر مانگ رہی تھی۔ سابقہ کارکردگی کودیکھتے ہوئے آر جے ڈی یہ سیٹ اس بار کانگریس کو دینے کے لیے قطعی تیار نہیں تھا بلکہ اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تارا پور کے ساتھ ساتھ اس سیٹ کے لیے بھی یکطرفہ طور پر اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کر دیا اور یہی فیصلہ اتحاد میں موجودہ بحران کی فوری وجہ بن گیا۔ حالانکہ یہ اور بات ہے کہ آر جے ڈی بھی 2008 میں درج فہرست ذات کے لیے ریزرو ہونے کے بعد اس سیٹ پر جیت درج نہیں کر سکا ہے۔
آر جے ڈی کے اس فیصلہ کے بعد کانگریس کے ریاستی لیڈروں کو موقع مل گیا اور فوراً شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اتحاد سے باضابطہ الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن بالواسطہ طور پر ایک طرح سے اس اتحاد میں دراڑ ضرور ڈال دی۔ کانگریس کے ریاستی انچارج بھکت چرن داس نے اپنے فوری ردعمل میں یہ کہہ دیا کہ آئندہ عام انتخابات میں کانگریس پارٹی ریاست کی تمام 40 لوک سبھا سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ لالو نے بھی جوابی حملے میں بھکت چرن داس کو مقامی زبان میں بے وقوف آدمی قرار دیا۔ ان کا یہ بیان دیگر کانگریس لیڈروں کو بھی کافی برا لگا۔ میرا کمار جیسی سینئر لیڈر بھی لالو یادو کے بیان پر سخت ردعمل دینے پر مجبور ہو گئیں۔ جب معاملہ دھیرے دھیرے بے قابو ہونے لگا تب سونیا گاندھی کو خود سامنے آنا پڑا اور انہوں نے لالو یادو کو فون کیا۔ ادھر لالو کو بھی احسا س ہوا کہ اگر اتحاد ٹوٹا تو سب سے زیادہ نقصان آر جے ڈی کو ہی ہوگا اور اس نے فوراً لیپاپوتی شروع کر دی۔ کانگریس کو ملک کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے بھی اس قومی پارٹی (کانگریس) کی اتنی ’مدد‘ نہیں کی جتنی کہ انہوں نے کی ہے۔ اس بحران کے لیے لالو نے ’چھٹ بھیا نیتائوں‘ کو ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’کانگریس کو جتنا میں جانتا ہوں، کوئی نہیں جانتا۔ جتنا دفاع میں نے کیا ہے، کسی نے نہیں کیا، جتنی مدد میں نے کی ہے، اتنی کسی نے نہیں کی۔ یہ ایک قومی پارٹی ہے جو یقینی طور پر بی جے پی کی متبادل ہے… یہ چھٹ بھیے ہیں جو سب کچھ برباد کررہے ہیں۔‘ ان کا اشارہ بھکت چرن داس کی جانب تھا۔
بہرحال معاملہ اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار میں موجودہ اپوزیشن اتحاد کا فائدہ فی الحال صرف اور صرف آر جے ڈی کو ملاہے۔ آر جے ڈی کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ کانگریس اعلیٰ ذات، دلت اور مسلمانوں میں اپنی گرفت پھر سے مِضبوط نہ کر سکے۔ اگر ریاست میں کانگریس مضبوط ہوئی تو ریاست کو آر جے ڈی کا ایک سکیولر متبادل مل جائے گا اور یہ کسی بھی قیمت پر آر جے ڈی کو گوارہ نہیں ہوگا۔ مقامی لیڈر چاہتے ہیں کہ کانگریس کو اب اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ طویل مدت تک دیگر پارٹیوں کے سہارے چلنا پارٹی کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ کانگریس کی جو روایت رہی ہے، اس کے مطابق حتمی فیصلہ ہائی کمان کے پاس ہوتا ہے۔ اب فیصلہ ہائی کمان کو کرنا ہے کہ سکیولرزم کے نام پر دیگر پارٹیوں کے سہارے ایسے ہی گھسیٹ کر چلنا ہے یا اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر خود اپنی پارٹی اور ملک کے شاندار مستقبل کے لیے لمبی دوڑ لگانی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS