اتحاد کا مظاہرہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہے؟

0

2011میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان نظریاتی رقابت فوجی تصادم میں تبدیل ہوگئی تھی۔ عرب اورافریقہ کے کئی ممالک کے درمیان یہ رقابت بہت سنگین روپ اختیار کرگئی۔ یوروپ اور امریکہ نے اس کو خوب ہوادی۔ مغربی میڈیا نے اس کو خوب اچھالا۔ دونوں مکاتب فکر ایک دوسرے کوختم کردینے کے دم پر تھے۔ اس دوران ان خطوںمیں مغربی افواج اور طاقتوں نے مضبوط اورمستحکم ملکوں میں طاقتور حکمرانوں کے سنگھاشن بلانے شروع کردیے۔ اس کی زد میں لیبیا، تیونس، الجیریا، ایران، یمن اور دیگر بڑے بڑے عرب ممالک آگئے۔ مگر بارہ سال تک ایک دوسرے کوختم کر نے پر آمادہ یہ ممالک اپنے حریفوں کوختم نہیں کرپائے مگر مغربی ممالک کو چیلنج دینے والے ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اورکرنل معمر قذافی جیسے حکمرانوں کو جس انداز سے لقمہ اجل بنا یا گیا یہ تمام ذی شعور افرادکی یاداشت میں ہے۔
مگر گزشتہ دوسال میں مغربی ایشیا اور افریقی عرب اور مسلم ممالک کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں تو ان کے ممالک کی سرزمین پر امریکی، برطانوی، فرانسیسی فوجیں گھس آئیں۔ عراق، شام، لبنان، لیبیا، مالے، برکینافاسو، الجیریا وغیرہ کی فہرست طویل ہے۔ ان میں مغربی افواج مقامی لیڈروں، قبائلی سرداروں کو اپنی انگلی پر نچا رہے تھے۔ معدنی، پٹرولیم کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ مچا رہے تھے اور شیعہ سنی ، عربی عجمی، افریقی غیرافریقی اختلاف رائے کو ہوا دے رہے تھے۔ مگرشعور کی آنکھ کھلتے ہی آج یہ ممالک اپنی زیادہ تر رقابتیں ختم کرچکے ہیں یا ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد محمدبن سلمان نے پرانی دیواروں کو منہدم کرکے ترسیل اورملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ایران نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے تصادم کو ترک کرکے باہمی ترسیل اور مذاکرات کا وہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ مغربی طاقتیں انگشت بدندان ہیں۔ سانحہ غزہ کے بعد شاہ محمد بن سلمان کاایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ بات کرنا آہنی دیواروں پر ضرب کاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلانے میں چین نے انتہائی مخلصانہ اور موثر رول ادا کیا ہے۔
دونوں مسلم طاقتوں کواندازہ ہے کہ کس طرح امریکہ اسرائیل کے ساتھ معصوم لوگوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب میں معاون بن رہا ہے۔ خیال رہے کہ چند روز تک سعودی عرب ایران اوراسرائیل کے جنگی عزائم پر متفکر تھا اور امریکہ کے ساتھ ان خطرات پر گفتگوکر رہا تھا۔ کچھ ذرائع ابلاغ تو یہ تک بتا رہے تھے کہ اسرائیل اور سعودی عرب ایک دوستانہ سمجھوتے پر پہنچنے ہی والے تھے کہ حماس کا حملہ ہوگیا۔ایران کے علاوہ سعودی عرب ترکی کے ساتھ بھی تازہ ترین صورت حال پر مسلسل رابطے میں ہے اوراس خطے کے دیگرممالک مصر، اردن اس صورت حال پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔
سعودی عرب نے دنیا میں اپنی حالیہ سرگرمیوں میں یہ باور کرادیا ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کا دم چھلہ نہیں ہے۔ روس اور چین کے ساتھ اس کے لگاتار بڑھتے ہوئے تجارتی، اقتصادی، سفارتی اور فوجی تعلقات نے اہل مغرب کو متفکر کردیا ہے اور یہی فکرمندی اسرائیل کوپوری طاقت دینے اور اس کی تمام غیرانسانی اور وحشیانہ حرکتوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی میں مضمر ہیں۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتحاد کا مظاہرہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS