پارلیمنٹ میں در اندازی اور حکومت کا طرزعمل

0

اکثر اپنی تقریروں میں وزیراعظم نریندر مودی عوام کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ’ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے ‘وہ دشمنوں کے سامنے ہر وقت سینہ سپر رہتے ہیں‘خود کو فنا کرکے بھی ملک کا تحفظ ان کی زندگی کا مقصد ہے‘ وغیرہ وغیرہ ۔ وزیر اعظم جیسے جلیل القدر عہدہ سے اگر کوئی عام سی بات بھی کہی جائے تو لوگ اسے پوری توجہ سے سنتے ہیں اور اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر وزیراعظم نریندر مودی ملک کے تحفظ کی یقین دہانی کرائیں تو اس پرعام لوگوں کا ایمان کی حد تک یقین کرناغلط نہیں ہے۔ مگرافسوس اس بات کا ہے کہ مشاہدات اور تجربات وزیراعظم نریندر مودی کی یقین دہانی اور گارنٹی کی بارہا نفی کرتے آرہے ہیں۔ ’تحفظ‘ کے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی یقین دہانی کی نفی کا تازہ واقعہ کل پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں پیش آیا۔ ایک طرف قائد ایوان وزیراعظم نریندر مودی اپنی پارٹی کے دو نومنتخب وزرائے اعلیٰ مدھیہ پردیش میں ڈاکٹر موہن یادو اور چھتیس گڑھ میں وشنو دیو سائی کی حلف برداری کی تقریب میں مصروف تھے اسی دوران 4افرادنے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو نشانہ بنایا۔ سامعین کی گیلری سے چھلانگ لگاکر چاہ ایوان میں جا اُترے اور لوک سبھا کے اندر رنگین دھواں چھوڑا۔
اس واقعہ نے یہ ثابت کردیا کہ ’ تحفظ‘ کی یقینی دہانی اور گارنٹی بے وقعت ہے ‘ملک کی سب سے بڑی پنچایت آج بھی اتنی ہی غیر محفوظ ہے جتنی کہ 22 سال پہلے تھی جب پارلیمنٹ کی پرانی عمارت پردہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ تازہ ’واردات‘ اسی دن ہوئی جس دن 22سال پہلے دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور حیرت مزید دو چند ہوجاتی ہے جب یہ خیا ل آتا ہے کہ 22 سال پہلے اس وقت بھی بھارتیہ جنتاپارٹی کی ہی حکومت تھی ۔یہ الگ بات ہے کہ دونوں واقعات کی نوعیت میں فرق ہے لیکن دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ’ تحفظ‘ کا مسئلہ ‘ جو22سال پہلے کی طرح آج بھی برقرار ہے۔ اسے 13 دسمبر2001 سے کم بڑا واقعہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اُس واقعے میں حملہ باہر ہوا تھا۔ اُس وقت پولیس فورس اور سیکورٹی اہلکاروں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کو اندر داخل ہونے سے پہلے ہی روک دیاتھا۔ کچھ پولیس والوں نے انہیں اندر تک پہنچنے سے روکنے کیلئے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔ مگریہ واردات ایوان کے اندر ہوئی ہے۔ یہ تواچھاہواکہ ملزمین کوئی خطرناک چیز اندر نہیں لے گئے تھے ورنہ اس سے اراکین پارلیمنٹ کی جان بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ یہ بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ یہ چاروں افرادمیسور کے بی جے پی ایم پی پرتاپ سمہا کی سفارش سے جاری کردہ داخلہ پاس پر پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔ اس واردات کا ویڈیو دیکھنے سے ایوان کے اندر تعینات مارشل اور دوسرے سیکورٹی اسٹاف کی مستعدی، چابک دستی یایوں کہیں استعدادکار بھی واضح ہوگیا۔ واردات کے وقت یہ سرکاری عمال بعد میں آئے دراندازوں کوپہلے کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے ارکان نے گھیرااور پکڑلیااس کے بعد مارشل لے گئے۔
واقعہ کے عوامل اوراس کے پس پشت اصل حقیقت کا پتہ تو تحقیقات کے بعد لگے ہی گا لیکن جس طرح سے حفاظتی حصار کو ناکام بناکر یہ کارروائی کی گئی وہ انتہائی تشویش ناک ہے، اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ دو دہائی قبل پارلیمنٹ ہاؤس پر ہوئے حملے کے باوجود حکومت ابھی تک چوکنا نہیں ہوئی ہے۔ایوان کے تحفظ میں ہونے والی اس کوتاہی، کمی، خامی، غلطی کے براہ راست ذمہ دار وزیر داخلہ امت شاہ ہیں۔حکومت اس واقعہ اور پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں خرابی پر بیان دینے سے پہلو بچارہی ہے ۔ بیان اور بحث کا مطالبہ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کو باہر کا راستہ دکھایاجارہاہے۔آج واقعہ کے دوسرے دن جب حزب اختلاف نے وزیرداخلہ امت شاہ کی جانب سے اس معاملے میں بیان نہ دینے پر احتجاج کیاتو لوک سبھا کے14اور راجیہ سبھا کے ایک ترنمول کانگریس کے رکن کو سرمائی اجلاس کے باقی ماندہ اجلاس تک کیلئے معطل کر دیا گیا۔اس معاملے پر بحث کیلئے راجیہ سبھا میں28نوٹس دیئے گئے تھے اور لوک سبھا کے ایک درجن سے زیادہ ارکان نے بھی اس پر بحث کا مطالبہ کیاتھانیزیہ مطالبہ بھی کیاگیا کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ انہوں نے ہی دراندازوں کو ایوان کے اندرجانے کا پاس جاری کیا تھا۔ حزب اختلاف کا یہ اصرار بھی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے کرائی جائے ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو نہ تو اس واردات کی سنگینی کا احساس ہے اور نہ وہ اس معاملے میں کوئی بیان ہی دینا چاہتی ہے اسی لئے پہلے تو بیان و بحث سے ہی حکومت نے انکار کردیا اور جب حزب اختلاف کا اصرار بڑھا تو زبان بندی کیلئے انہیں معطل کر دیا گیا۔ ایوان میں ہوئی اس دراندازی اور سنگین واقعہ کے بعد حکومت کا طرزعمل لیپاپوتی کرنے جیسا لگ رہا ہے۔ اگرحکومت حقیقتاً اس معاملے کو سنگین سمجھ رہی ہے تواس پر ایوان میں کھل کر بحث ہونی چاہئے اور وزیراعظم کی جانب سے دی جانے والی گارنٹی اور تحفظ کی یقین دہانی پر بھی سوال کیاجاناچاہئے کیوں کہ اس واقعہ کی آخری اور قطعی ذمہ داری وزیراعظم پر ہی عائد ہوتی ہے جن کی یقین دہانی کے باوجود حفاظتی حصار ریت کی دیوار ثابت ہوا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS