موسمیاتی پناہ گزینوں کے لئے مضبوط پالیسی ناگزیر

0

پنکج چترویدی

شمال مشرق کی سب سے بڑی ریاست آسام میں برہم پتر ندی کی تیز موجوں کے درمیان واقع ماجولی کو دنیا کی ایک بڑی ندی کھا جاتی ہے۔ 1951 میں یہ جزیرہ تقریباً 1,250 مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا تھا اور اس کی آبادی 81,000 تھی۔ اگلے 60 برسوںکے دوران آبادی دگنی سے بھی زیادہ ہو کر 167,000 ہو گئی لیکن جزیرہ دو تہائی کم ہوگیا تھا۔ 1950 سے 2016 کے درمیان ماجولی کے 210 گاوؤں میں سے 107 گاوئوں ندی میں جزوی یا مکمل طور پر ڈوب گئے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ہمالیہ سے پگھلتے گلیشیئر کے ساتھ ساتھ برہم پتر میں تیز ہوتے سیلاب کی وجہ سے ماجولی 2040 تک غائب ہو سکتا ہے۔ یہاں سے ہر سال کئی ہزار لوگ نقل مکانی کرتے ہیں۔ پہلے اسی جزیرے کے کسی محفوظ مقام پر پھر گواہاٹی-کولکاتا یا اس سے بھی آگے۔ موسمیاتی تبدیلی کس طرح بھارت میں ایک بڑے پیمانے پر انسانی نقل مکانی کی وجہ ہے، اس کی مضبوط علامت ماجولی اور ریاست کے وہ اضلاع ہیں جہاں ندیاںتیزی سے اپنے کناروں کو کھا رہی ہیں اور زراعت پر انحصار کرنے والے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے بے زمین ہو جاتے ہیں اور پھرکسی سستی مزدوری کی بھٹی میں استعمال ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کلائمیٹ مائیگریشن کی اصطلاح کے حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی نہیںبنی۔ جی-20 سربراہ اجلاس میں بھی اس موضوع پر کوئی ٹھوس بات نہیں ہوئی۔ انسانی نقل مکانی صرف انسانی محنت کی منتقلی نہیں ہوتی، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ علم، انسانی تہذیب اور روایتی حیاتیاتی تنوع بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے مینگرو اور رائل بنگال ٹائیگر کے مسکن کے لیے مشہور سندربن کے سمٹنے اور اس کا اثر گنگا ندی کے سمندرکے ساتھ سنگم گنگا ساگر تک پڑنے کا سب سے بڑا المیہ کئی ہزارسال سے آباد لوگوں کا گھر اور کھیت چھوڑنے پر مجبور ہونا ہے۔ سندربن کا لوہاچارا جزیرہ 1991 میں غائب ہو گیا جبکہ خلیج بنگال سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں گھورمارا میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غیر معمولی کٹاؤ دیکھا گیا ہے۔ یہ 26 مربع کلومیٹر سے کم ہو کر تقریباً 6.7 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کٹاؤ تیزی سے ہوا ہے، 2011 میں یہاں کی آبادی تقریباً40,000 تھی، اب یہ گھٹ کر صرف 5,193 رہ گئی ہے۔ہمارے ساحلی علاقے، جہاں تقریباً 17 کروڑ لوگ رہتے ہیں، بدلتی ہوئی آب و ہوا کی مار میں سب سے آگے ہیں۔ یہاں سمندر کی سطح میں اضافہ ، کٹاؤ اور ٹروپیکل طوفان اور گردابی طوفان جیسی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خلیج بنگال میں ابھی تک کے سب سے مضبوط طوفان امفان آیا جس سے کئی لاکھ لوگوں کو گھر خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سب سے زیادہ خطرناک کٹاؤ سمندر کے ساحلوں پر ہے۔ گائو ںکے گائوں اجڑ رہے ہیں، پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے میٹروپولیٹن شہروں میں بھی ڈوبنے کا انتباہ مضبوط ہو رہا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات شدید موسم، طوفانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، بجلی کے گرنے ، تیز لو اور اس کی وجہ سے کھیتی میں بتدیلی، رہائش اور خوراک میں دشواری کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ عالمی سطح پر شدید موسم سے نقل مکانی کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بھارت میں سیلاب اور طوفان نے گزشتہ 6 برسوں میں 67 لاکھ بچوںکو گھر سے بے گھر کر دیا ہے۔ یہ بچے اسکول چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔ یونیسیف اور انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر کی 2016 سے 2021 تک کی اسٹڈی سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ ہندوستان، چین اور فلپائن میں 2.23 کروڑ بچے بے گھر ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں بچوں کے بے گھر ہونے کی وجہ بھی جغرافیائی حالات جیسے مانسون کی بارش، طوفان اور موسم کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ ہندوستان میں سیلاب کے باعث 39 لاکھ، طوفان کے باعث 28 لاکھ اور خشک سالی کے باعث 20 ہزار بچے بے گھر ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق، تقریباً 45 کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی جن میں سے 64 فیصد دیہی علاقوں سے تھے۔ نقل مکانی کرنے والوں کا ایک بڑا حصہ کم آمدنی والی ریاستوں اترپردیش اور بہار سے ہے ( ریاست سے باہر جانے والے کل مہاجرین کا 36فیصد)۔ یہ دونوں ریاستیں جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ کاشت والے گنگا کے علاقے میں واقع ہیں۔ گھر چھوڑ کر جانے والے کچھ لوگ محض تھوڑے دنوں کے لیے کام کرنے گئے لیکن زیادہ تر کی ہجرت مستقل تھی۔ یہ آبادی بنیادی طور پر حاشیے پر رہنے والوں کی تھی جو زراعت پر انحصار کرتے تھے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ گنگا کا خطہ ہندوستان کا سب سے زیادہ گنجان آبادی والا علاقہ ہے جہاں تقریباً 64 کروڑ لوگ مفلسی میں جیتے ہیں۔ حالیہ دہائی کے دوران ان علاقوں سے نقل مکانی کی رفتار میں تیزی آئی ہے اور یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت زراعت کو بری طرح متاثر کرتا ہے جس سے سرحدوں کی زراعت پر انحصار دیہی آبادی کا عدم تحفظ بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی ایسے غریب لوگوں کے لیے متبادل کی تلاش میں گھر، گاؤں چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔جب روزگار کے لیے میٹروپولیٹن شہروں کی طرف ہجرت بڑھ جاتی ہے تو یہ پہلے سے گنجان آباد علاقوں میں صحت، صاف پانی، نقل و حمل وغیرہ میں نئے مسائل پیدا کرتی ہے۔ دہلی جیسے شہر گزشتہ کئی برسوں سے زبردست گرمی اور لو کے گواہ رہے ہیں اور بے حد غریب لوگوں کے لیے یہ حالات انتہائی تشویشناک ہوتے ہیں۔ لواور اس کے بعد برسات میں مچھروںسے پیدا ہونے والے امراض سے یہ لوگ بے حال ہوتے ہیں۔
معاشیات کی زبان میں ہجرت ہندوستان میں ترقی کے عمل کا ایک لازمی حصہ رہی ہے۔ لوگ دیگر وجوہات کے علاوہ بہتر اقتصادی اور سماجی مواقع کے لیے طویل عرصے سے ملک کے اندر آتے جاتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے2017 کے اکنامک سروے کے مطابق، 2011 سے 2016 کے درمیان بین ریاستی ہجرت سالانہ 9کروڑ کے قریب تھی جبکہ2011 کی مردم شماری میں نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد 13.9 کروڑ یا آبادی کا 10 فیصد درج کی گئی۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں نقل مکانی ایک زبردست سماجی مسئلہ ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے یہاں آب و ہوا سے متعلق خطروںکی وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والوں کے لیے کوئی مناسب منصوبہ نہیں ہے۔ ’ماحولیاتی پناہ گزیں‘، ’موسمیاتی پناہ گزیں‘، ’ماحولیات کی وجہ سے نقل مکانی‘ اور ’موسمیات کی وجہ سے نقل مکانی‘ جیسی اصطلاحات ابھی تک سرکاری دستاویزات میں آئی نہیں ہیں۔ ان کے لیے کوئی الگ زمرہ نہیں ہے اور نہ ہی موسمیاتی مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے کوئی منصوبہ ہے۔ سنجیدگی سے دیکھیں تو ملک کی آزادی کے 100 سال ہونے پر ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج اور المیہ ہوگا اپنی جڑوں سے اکھڑ کر مجبوری میں کسی انجان مقام پر جینے کی جدوجہد کرنے والے کئی کروڑ لوگ جن کے پاس اپنی روایت اور عقیدت کا ماضی کا کوئی نشان نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS