باہمی سرمایہ کاری کے فنڈس کا تعارف اور اس میں مسلمان کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع

0

پروفیسر عرفان شاہد
(گذشتہ سے پیوستہ )
(1 )Growth Plan (نمو بخش سرمایہ کاری کا منصوبہ )
(2 )Dividend Plan (تقسیم نفع کا منصوبہ)
(3 )Dividend Reinvestment Plan (حاصل شدہ نفع کے سرمایہ کاری کا منصوبہ)
(1 )Growth Plan (نمو کے سرمایہ کاری کا منصوبہ) : اس اسکیم کے تحت جو بھی سرمایہ کاری شدہ رقم سے حاصل ہوتاہے اسے میو چول فنڈس کا معاملہ دوبارہ سرمایہ کی پونجی میں ڈال دیتا ہے ۔اس طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور سرمایہ کے پونجی میں اضافہ ہوتا رہتا ہےاور اس میں سرمایہ کار کو سہ ماہی یا سالانہ نفع الگ سے بھی دیا جاتا ہے جیسا کہ دوسری اسکیموں میں ہوتا ہے ۔جو لوگ طویل مدت سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں وہ لوگ اس منصوبہ (Investment Plan )کواپناتے ہیں یہ منصوبہ ان کے لئے کافی بہتر ہے ۔ اس کا کچھ حصہ میو چول فنڈس کو دیا جاتا ہے اور بقیہ حصہ سرمایہ کے تناسب سے سرمایہ کار وں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا ۔
(2 )Dividend Plan (تقسیم نفع کا منصوبہ)اس اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کئے گئے رقم سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے اس کے سرمایہ کاری کے اخراجات سے نفی کیا جاتا ہے اور اس کے بعد نفع حاصل ہوتا ہے۔اسے دوبارہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی بلکہ اس حاصل شدہ نفع کو سرمایہ کا تناسب سے سرمایہ کار کو دے دیا جاتا ہے ۔یہ منصوبہ ان لوگوں کے لئے کافی نفع بخش ہو سکتا ہے جن کے پاس (Regular Income )مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے ۔میوچول فنڈس کے سرمایہ کار اسی منصوبہ کے تحت زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
(3 )Dividend Reinvestment Plan (حاصل شدہ نفع کے سرمایہ کا منصوبہ)اس منصوبہ کے تحت میوچول فنڈس سرمایہ پر حاصل شدہ Dividend (نفع) کو پھر سے سرمایہ کاری میں لگادیا جاتا ہے ۔اسطرح سرمایہ کار کے حصہ میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔آج کے دور میں لوگ اس طرح کے اسکیم میں سرمایہ کاری کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔
میوچول فنڈس میں لوگ سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں: میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کرنے کے بہت سارے وجوہات میں سے چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
(1)میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ نقصان(Risk)سے بچنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ میوچول فنڈس کی سرمایہ کاری میں (Risk Factor)کم ہوجاتے ہیں بذات خود شیئربازار میں سرمایہ کاری کرنے سے۔
(2)لوگوںکے پاس وقت نہیں ہوتا ہے کہ وہ شیئر بازار کے بارے میں پتہ لگائیں جبکہ میوچول فنڈس کا عاملہ اسی کام کے لیے خاص ہوتا ہے اور ان کے ماہرین شیئر بازار کے کمپنیوں کے بارے میں اچھی طرح پتہ لگاتے ہیں اور جب ان کو اطمینان ہوجاتا ہے تو ہی اس کمپنی کے شیئرز کو خریدتے ہیں جو ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں لہٰذا لوگ میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
(3) بعض اوقات سرمایہ کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے سرمایہ کار شیئر بازار میں براہِ راست سرمایہ کاری نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں میوچول فنڈس کی یونٹ خرید کر شیئربازار کی سرمایہ کاری میں شامل ہوجاتے ہیں۔
(4)شیئر بازار میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے علم اور تجربے دونوں کی بڑی اشد ضرورت ہوتی ہے جو ایک عام آدمی کو نہیں میسر ہے۔ چنانچہ جو لوگ شیئر بازار کی تکنیکی چیزوں سے واقف نہیںہوتے وہ میوچول فنڈس ہی میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
(5)میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کی کچھ ایسی اسکیمیں ہوتی ہیں جس میں سرمایہ کاری کرنے سے Taxکی بچت ہوجاتی ہے۔ لہٰذا لوگ Tax سے بچنے کے لیے بھی میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
مسلمانو ںکے لیے میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کے مواقع: مسلم حضرات بھی میوچول فنڈس میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ میوچول فنڈس کا اپنا ذاتی سرمایہ کاری کا طریقہ اسلام کے طریقے تجارت سے مخالف نہ ہو۔ بیرون دنیا اور عرب ممالک بہت سارے میوچول فنڈس قائم کیے گئے جو اسلامی طریقے تجارت مطابقت رکھتے ہیں جیسے ایمان میوچول فنڈس، امانتہ میوچول فنڈس ٹرسٹ، ڈاوجونن اسلامی فنڈس وغیرہ۔
ہندوستان میں بھی دو میوچول فنڈس قائم کیے گئے ہیں جو اسلامی قوانین تجارت سے ہماہنگی کا اقرار کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک TSF(Tata Select Equity Funds) ٹاٹا سلیکٹ اکویٹی فنڈس ہے اور دوسرے کو (Taurus Ethical Funds) ٹاورس ایتھکل فنڈس کہتے ہیں۔ لیکن فی الوقت راقم الحروف کو ان کی تجارت کی ساخت گدا علم نہیں کہ وہ کیسے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ان کے سرمایہ کاری کے ساخت کا مطالبہ کیا تھا اس وقت معاملہ تسلی بخش تھا۔ ابھی اس وقت کیا پوزیشن اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے گزارش ہے جو لوگ اس میدان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کو خط لکھ یا ای میل کرکے پتہ لگالیں کہ ان کا شریعہ ایڈوائزر کون ہے اور اس نے اس فنڈس کو کیسے ترتیب دیا ہے اور اس میں کتنے شریعت کے بنیادی قوانین کا لحاظ کیا گیا۔
واضح رہے کہ شریعہ اسکالر دونوں علوم سے واقفیت رکھتا ہو یعنی وہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ علم معاشیات اور فائنانس کے علم سے بھی واقف ہو۔ دونوں میں سے کسی بھی علم کی عدم موجودگی میں وہ صحیح طریقے سے شرعی قوانین کو جدید تجارتی اصولوں پر منطبق نہیںکرسکے گا۔ کچھ لوگ مسلم عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اس طرح کا کام کرتے ہیں ، تجارتی امور میں شرعی مشورے کے لیے ہمیں انہیں لوگوں سے رجوع کرنا جو دینی علوم کے ساتھ معاشیات ، فائنانس ، انگریزی اور عربی زبان کا علم رکھتے ہوں اور اسلام کے ساتھ جدید تجارتی نظام کے خم و پیچ سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے علماء ہیں جو علم دین میں بحرالعلوم کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن انہیں جدید تجارتی نظام اور فائنانس کا علم نہیں ہے اس لیے ان سے نکاح، طلاق، روزہ، حج وزکوٰۃ کے مسائل کے متعلق ضرور رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اس میدان میں ان کو دسترس حاصل ہے۔ لیکن جہاں تک تجارت اور فائنانس کی بات ہے تو ہمیں انہیں لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے جو دونوں علوم میںگہرا علم رکھتے ہوں۔ الحمدللہ آج ہمارے درمیان اس طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ہماری رہنمائی اس میدان میں بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ ll
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS