شاہد زبیری
سرسنگھ سنچالک موہن بھاگوت جی جب بھی لب کشا ہوتے ہیں سرخیوں میں چھاجاتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے لے کرالیکٹرانک میڈیا تک سیاسی حلقوں اور عوامی حلقوں میں ان کے بیانات اور تقاریر کے چرچے ہوتے ہیں۔2014کے بعد سے بھاگوت جی کے بیانات اور تقاریر کی اہمیت کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان دنوں ان کے ایک انٹرویوکو لے کر ملک میں کچھ ایسا ہی ماحول ہے ۔یہ انٹرویوانہوں نے سنگھ کے ترجمان ’پانجنیہ‘ اور ’آرگنائز‘ اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کو ایک ساتھ دیا ہے۔ یہ طویل انٹرویو حقیقت میں سنگھ اور بی جے پی کی سیاسی حکمتِ عملی کا روڈ میپ ہے۔ اس میں باتیں بہت ہیں اور ہر بات کے ایک نہیں سو پہلو ہیں تاکہ کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کیلئے، یہ انٹر ویو بھی اس کی ایک مثال ہے جو سنگھ کی ’نیتی اور نیت‘کا اظہار ہے ۔اس انٹرویو میں ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں کہا کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں اوراسلام کو بھی کوئی خطرہ نہیں ۔ بھلا ان کی اس بات پر کس کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اس کیلئے انہوں نے کچھ شرطیں بھی عائد کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اس وقت ممکن ہے جب مسلمان سنگھ کی شرطوں پر اس ملک میں رہیں ورنہ وہ چاہیں تو ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ بھاگوت جی سے کوئی پوچھے آپ کون ہوتے ہیں مسلمانوں کو ملک چھوڑ کر چلے جانے کی صلاح یا دھمکی دینے والے۔ یہ ملک اسی طرح ان کا بھی ہے جس طرح آپ کا ، مسلمان تو اس وقت ملک چھوڑ کر نہیں گئے جب جناح اور مسلم لیگ نے ان کو اسلامی ملک کے سبز باغ دکھائے تھے اور تقسیم ِ ہند کے وقت ایک موجِ خون ان کے سروں سے گذری تھی تب نہیں گئے اب کیوں جائیں گے وہ اس ملک کی مٹی کی محبت اور آئین کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، وہ آپ کی شرطوں کے پابند نہیں ہو سکتے ۔ اپنے انٹرویو میں وہ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کے دھرم کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتے ہیں ان کے شدھی کرن اورگھر واپسی کی بات کرتے ہیں اور ایک طرح سے بحیثیت ایک فرقہ کے وہ مسلمانوںکوملک میں رہنے کا لالچ بھی دیتے ہیں اور ڈر اتے بھی نظر آتے ہیں۔ معلوم نہیں قانون کی نظر میں یہ کوئی جُرم بنتا ہے کہ نہیں۔ بھاگوت جی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔انہوں نے اپنے بیان سے کہیں نہ کہیں ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت ہندوؤں کو مسلمانو ںکے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔بھاگوت جی نے انٹر ویو میں تاریخ کے گڑے مردے اکھا ڑے ہیں وہ ہندئووں کو ملک کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے حوالہ سے احساس دلاتے ہیں کہ اس ملک میں وہ ایک ہزار سال سے حالتِ جنگ میں ہیں پہلے یہ جنگ بیرونی حملہ آور مسلمان سلاطین اور بادشاہوں سے تھی جو سب کے سب مسلمان تھے۔ اب یہ جنگ ان داخلی دشمنوں سے جاری ہے جن میں وہ مسلمان بھی شامل ہیںجو بقول ان کے ہندوستان پر ماضی کی حکمرانی کے احساسِ برتری کیساتھ جینے پر بضد ہیں اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کی بالاتری کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ ہندو جارحیت اورانتہاء پسندی کو یہ کہہ کر جائز ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں ایسا ہو نا فطری ہے گرچہ ٹھیک نہیں۔ بھاگوت جی ! جو ٹھیک نہیں وہ کسی بھی حالت جائز کیسے ہو سکتا ہے ؟اگر تاریخ کو اس تناظر میں دیکھا جا ئیگا تو ملک میں انارکی پھیل جائیگی اور بات دور تلک جائیگی۔ بھاگوت جی اور سنگھ کے مطابق اگر ایک ہزار سال پہلے کے مسلمان سلاطین اور بادشاہوں کے اچھے برے کی سزا کے مستحق آج کے مسلمان ہیں تو 5ہزار سال تک دلتوں پر جو بربریت اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ،جین مذہب اور بودھ مت کے ماننے والوں کے سر قلم کئے گئے بودھ مت کو دیس نکا ل دیا گیا اس کیلئے کس کو ذمّہ دار مانا جائے اس کیلئے کس کو سزا کا مستحق قرار دیا جائے؟ بھاگوت جی نے یہ یاد دہانی بھی کرا نا ضروری سمجھا کہ آئین کے لحاظ سے اس ملک کا نام پڑے بھارت یا انڈیا ہو یہاں اکثریت ہندوئوں کی ہے اور یہ ایک ’ہندو راشٹر‘ ہے بھاگوت جی بھول گئے کہ ہندو اکثریت کایہ ملک آئینی اعتبار سے ابھی ایک سیکولر، سوشلسٹ اور جمہوری ملک ہے جس کو وہ ’ہندو راشٹر‘ مانتے ہیںلیکن ہندو اکثریت کو ڈیمو گرافی کے گھسے پٹے اندیشوں سے ڈراتے بھی رہتے ہیں جیساکہ اس انٹرویو میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ہوّا دکھا یا ہے جو سراسر غیر حقیقی ہے ۔ مسلم حکمراں جو کام نہیں کرسکے وہ آج کے مسلمان کیسے کر سکتے ہیں۔ ماہرین عمرانیات اور آبادی کے تمام سروے اور مردم شماری کی رپورٹیں ان کے اس پروپیگنڈہ کی پول کھولتے ہیں۔
ا س ملک کے رہنے والوں کو سب کو ہندو بتا نے اور ہندو اور مسلمانوں کا ایک ہی ڈی این اے ماننے والے اور مسلمانوں کے بغیر ہندوتو کے تصور کو نا مکمل بتانے والے بھاگوت جی نے اپنے تازہ انٹرویو میں وہ سب کچھ کہا ہے جو سنگھ کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جو بھی کہا سنگھ اور اس کے طریق کار سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے وہ کوئی نیا نہیں ہے۔سنگھ کے گرو گولوالکر بھی اپنی کتاب’ بنچ آف تھاٹ‘ جو اب ہندی میں ’نو نرمت وچار‘کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا نے کا اظہار کر چکے ہیں اب وہی راگ موہن بھاگوت جی نے اپنے انٹرویو میں الا پا ہے ۔موہن بھاگوت جی کے اس انٹرویو میں اگر کچھ نیا ہے تو وہ اس کی ٹائمنگ ہے۔ یہ انٹرویو اس وقت سامنے آیا جب راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اپنے آخری پڑائو پر ہے۔ پوری یاترا کے دوران راہل گاندھی نے سنگھ پریوار کی جس طرح بخیہ ادھیڑی ،سنگھ کا موازنہ مہابھارت کی لڑائی میں ’کورو‘سے کیا سنگھ کے نیکر اور لاٹھی کا مذاق اُڑایا اس سے سنگھ بوکھلایا ہوا ہے جس کا غصّہ سنگھ مسلمانوں پر اتارنا چاہتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ بوکھلاہٹ اس لئے ہے کہ سنگھ اور اس کے گماشتے اب تک جس راہل کو ’پپو‘ کہتے تھے اب ’پپو‘نہیں رہا ’تپسوی‘ بن گیا ہے جس کو کنیاکماری سے کشمیر تک ملک کے ہر حصّہ میں ہر طبقہ اور فرقہ نے مذہب دھرم اور ذات برادری سے بالا تر ہو کر اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔لاکھوں کی بھیڑ جس کیساتھ چل رہی ہے سنگھ کی پریشانی یہ بھی ہے کہ اس’ پپو‘نے سنگھ اور بی جے پی کے نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کیو ں کھول لی ہے۔ 2023 کے رواں سال میں ملک کے 9صوبوں کے انتخابات کے علاوہ 2024میں پارلیمانی انتخابات ہو نے والے ہیں اور 2025میں سنگھ پریوار کے قیام کے 100سال پورے ہورہے ہیں ایسے میں یہ سب سنگھ اور بی جے پی کوراس نہیں آرہا ہے ۔ اگردیکھا جا ئے تو یہ انٹرویو نہیں سنگھ اور بی جے پی کی مشترکہ سیاسی حکمت ِ عملی کا روڈ میپ ہے جس کے تحت سنگھ اور بی جے پی کارڈ کو آگے کام کرنا ہے، جس میں یکساں سول کوڈ ، لو جہاد ، دھرم پریورتن ، ماب لنچنگ اورآبادی کا تناسب بگڑنے، مسلمانوں کی آبادی بڑھنے اور ہندئووں کی آبادی کم ہونے جیسے آزمودہ سب ہتھیاروںکا استعمال کیا جا ئے گا اور وہ سب کچھ سنگھ اور بی جے پی کے لیڈر دہرائیں گے جو باتیں بھاگوت جی اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں۔ سنگھ اور بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ ان ایشوز کے علاوہ عوام کے درمیان کوئی ایشوابھرنے نہ پائے۔ بھوک ، بیروزگاری ،بیماری اور دوائی ،مہنگائی کی مار ، تعلیم کے کاروبار، کسانوں کی حالتِ زار، غیر ملکی قرضے ،اڈانی- امبانی کی لوٹ ان پر کوئی بات نہ ہو، کوئی سوال نہ پوچھے۔ دلت اور اوبی سی کے ریزرویشن اور آئین سے چھیڑ چھاڑ کے اردوں پر کوئی انگلی نہ اٹھانے پائے اورہندو مسلمان اور 80-20کاکھیل اسی طرح چلتا رہے جیسا اب تک چلتا آرہا ہے۔
[email protected]