عالمی برادری اور عالمِ اسلام کی بے بسی

0

مغربی ایشیا صورت حال انتہائی دھماکہ خیز ہے اگر چہ حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلیکن نے فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے مگر امریکی حکام کا رویہ کس قدر جانب دارانہ اور غیر منصفانہ ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے اسرائیلیوں کی بربریت کو دیکھتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کی غاضب فوج کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے اعلان پر محمود عباس کے ساتھ اظہار ناراضگی کیا ہے۔
زمینی حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ اور نام نہاد عالمی برادری کی معتبریت اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ ان بدترین حالات اور سنگین ترین امور میں یہ غیرجانبدار طاقتیں اسرائیل کا دفاع کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معزول صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو پامال کرتے ہوئے مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے موقف کو جو کہ صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے، نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنا سفارتی عملہ بھی مشرقی یروشلم تعینات کرنے اور وہاں دفتر کھولنے کا اعلان کردیا۔ آج عالمی برادری کی تمام تر کوششوں اور صلح رحمی کے دعوئوں کے باوجود اور اسرائیل کے کئی ممالک کے ساتھ سمجھوتوں کے دفاعی معاہدوں کے باوجود اسرائیل کا فلسطینیوں کے تئیں ظالمانہ رویہ برقرار ہے، مغربی کنارے میں ایک ساتھ9؍ افراد کی شہادت کے بعد اسرائیل کے سماج میں سڑکوں پر خونریزتصادم کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
غزہ کی پٹی کو ایک کھلی ہوئی جیل میں تبدیل کرنے اور عربوں فلسطینیوں کو بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کے بعد اب اسرائیل مغربی کنارے کے وسیع اور عریض علاقے پر غیرقانونی تعمیرات کررہا ہے اور نئے نئے علاقوں میں فلسطینی گھروں میں انہدام کرکے وہاں دنیا بھرسے یہودیوں کو لاکر بسایا جارہا ہے۔
اسرائیل کے حالیہ انتخابات میں جس کے نتائج یکم نومبر کو سامنے آنے تھے سخت گیر نظریات کے حامل سیاسی پارٹیاں برسراقتدار آتی ہیں ان میں وہ سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن کو نسل پرست اور قانون شکن بھی قرار دیا جاتا ہے ان میں کئی سخت گیر لیڈر بنجامن نتن یاہو کی قیادت میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے اجتماعی طور پر سزا دینے اور فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائی دینے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے جس کے تحت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ تصادم میں فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنا بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حرکات بین الاقوامی قواعد اور قوانین کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے۔ اور اس سب کے باوجود عالمی برادری خاموش اور وزیر سزا یافتہ ہیں جن کی وزارت میں برقرار کو یقینی بناتے کے لیے وہ خصوصی قانون بنانے پر مضر ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودہ حکومت نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر اور عدلیہ کی مداخلت اس کے اثر و رسوخ کو بے اثر کرنے کے لیے ایسی ترمیمات لیکر آئے ہیں جن کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرنا آسان ہو جائے گا۔ اسرائیل کے اندر موجودہ حکومت کے ان اقدام کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یروشلم اور تل ابیب میں کئی اعلیٰ پیمانے کے احتجاج ہو چکے ہیں۔ عام جمہوریت پسند اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ترمیمات سے اسرائیل کی جمہوریت اقدار اور روایات کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیل کے سماج میں لگاتار جمہوری اقدار اور روایات کے رواں پر بحث ہو رہی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کا ایک بڑا طبقہ دونوں ملکوں میں جمہوری اقدار کی دہائی دیتا رہاہے مگر امریکہ میں ایک طبقہ اس بات کا بھی قائل ہے سوال کررہا ہے کہ ان کے ٹیکس کی قیمت پر اسرائیل کو اس انسانیت کشی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے کب تک اور اس کی کس حد تک حمایت کی جائے گی۔
دراصل مغربی ایشیا میں بین الاقوامی برادری خاص طور پر امریکہ کی علیحدہ ترجحات میں ان طاقتوں کے قول وعمل میں بلا کا تضاد نظر آتا ہے۔ اسرائیل کی حکمت عملی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی نہ ہو کر ایران کے نیوکلیر پروگرام کوبرباد کرنا ہے۔
پچھلے دنوں امریکہ میں فلسطینیوں کو مزید سفارتی مراعات دینے اور امداد فراہم کرانے کے امور پر اسرائیل دبائو ڈال رہاہے فلسطینی اتھارٹی کو واشنگٹن میں سفارت خانہ کھولنے اس کو مالی امداد فراہم کرانے کے لیے وعدہ کیا گیا تھا مگر اسرائیل نے ان دونوں اقدام پر امریکہ کو عمل کرنے سے باز رکھا ہے۔
یوکرین جنگ کے دوران عالمی سیاست کی ترجحات بالکل بدل گئی ہیں۔ پوری دنیا کی توجہ یوکرین پر روس کے حملہ کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یوکرین کو امریکہ اور اس کے حلیف یوروپی ممالک فوجی اسلحہ، امداد اور سفارتی مدد فراہم کرانے میں مصروف ہیں۔ اور ادھر اسرائیل اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے اور عالمی سیاست کے دیگر پہلوئوں کو نظر انداز کررہا ہے۔ امریکہ کی مکمل توجہ یوکرین اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ہے لہٰذا موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اسرائیل اپنے وسیع تر ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر یہودیوں کو بسانے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کے ذریعہ بستیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے اور قیام امن میں بڑی رکاوٹ ہے۔
پوری دنیا میں ابراہیمی سمجھوتے کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا اسرائیل ارض فلسطین میں کشت و خون کا بازار گرم کیے ہوئے وہ ہر روز فلسطینیوں پر بربریت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے مغربی کنارے، غازی کی پٹی، مشرقی یروشلم سے لیکر شام اور ایران کے اصقہای تک میں اسرائیل کی فوج کشی بے روک ٹوک جاری ہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری کے اہم مغربی ممالک امریکہ جس پر الزام ہے کہ اس کی سرپرستی میں اسرائیل عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے، اس کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ حالیہ دورے کے دوران اس قدر سخت حالات اور نازک ماحول میں اسرائیل کو باز رہنے کے لیے نہیں کہہ سکتے ہیں، امریکہ ایک بار پھر اسرائیل کو اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے، خیال رہے ابھی حال ہی میں امریکہ نے اسرائیل کی فوجی مدد میں غیرمعمولی اضافہ کیا تھا، امریکی وزیر خارجہ نے اگرچہ فلسطین میں بے گناہوں کی موت پر اظہار تعزیت کیا مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے ظالم کو روکنے کی لیے کیا کیا۔ امریکہ نے صر ف دو ریاستی فارمولے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس میں اسرائیل کی دلچسپی بالکل نہیں ہے۔ اسرائیل پر دبائو ڈالا جاسکتاہے اور اس کے اثرات جو مرتب ہو سکتے ہیں۔ صدر براک اوبامہ کے دور میں یہ کیا گیا تھا اور کچھ وقت کے لیے اسرائیل نے غیرقانونی بستیوں کی تعمیر موقوف کر دی تھی۔ مگر اس کے بعد اس سمت میں کوئی بیش رفت نہیں ہوئی اور آخر کار عربوں اور فلسطینیوں کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارروں کا سہارا لینا پڑا۔ آج بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ فلسطینیوں کی آزادی کے معاملے کو عالمی عدالت کے فورم پر اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس میں امریکہ کی اڑچن کے باوجود کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔ اس مرتبہ فلسطینی برادری کا زور امریکہ پر دبائو ڈالنے والا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ اسرائیل کو غیر ضروری طور سے چھوٹ دی جارہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس پر دبائو ڈالا جائے اور اس جواب طلب کیا جائے۔ فلسطینی قیادت نے واضح الفاظ میں باور کرادیا ہے کہ اسرائیل کی بربریت اور اس کا غاصبانہ قبضہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے اور اسرائیل کو اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ اہل فلسطین کی عزت اور وقار کو روندتا جائے اور اس کی آزادی کو مسلسل پامال کیا جاتا رہے۔ n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS