مہنگائی چوپال

0

تمام بلندبانگ دعوئوں اور خوش کن اعلانات کے باوجود ملک میں مہنگائی کا عفریت اپنی ہولناکی میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے۔ آر بی آئی اور مالیاتی پالیسی ساز دیگر اداروں کی کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نکلتا نظرنہیں آرہاہے۔ریپو ریٹ میں اضافہ اور سرمایہ داروں کو کھلے ہاتھ سے قرض دینے کے باوجود معیشت جمود کا شکارہے اور کساد بازاری نے دستک دینی شروع کردی ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر حکومت کی کسی اسکیم اوراعلان کا کوئی اثر نہیں پڑرہاہے ۔
دوسری طرف افراط زر کا جن بھی قابو سے باہر ہے۔ آئے دن قیمتوں میں اضافہ عوام کا مقدر بن چکا ہے۔ آج سے ہی دودھ کی قیمتوں میں فی لیٹر2روپے کا اضافہ کردیاگیا ہے۔ دودھ بیچنے والی ملک کی دو بڑی کمپنیوں ’امول‘ اور ’مدر ڈیری‘ نے ایک ساتھ ہی یہ اضافہ کیا ہے۔ اس اضافہ سے اب ایک لیٹر دودھ کی قیمت 60 سے 62 روپے تک ہوجائے گی ۔ دوسری طرف خوردنی اشیا اور زندگی کیلئے لازمی چیزیں بھی ہوش ربا گرانی کے باعث غریب عوام کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہیں ۔
ان تباہ کن معاشی حالات پر حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کے خلاف کانگریس آج 17اگست سے ملک بھرمیں ’مہنگائی چوپال‘ لگارہی ہے ۔گزشتہ 5اگست کو بھی کانگریس نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کیا تھا اور اب اگلے 23 اگست تک کانگریس ملک کے تمام اسمبلی حلقوں میں ’مہنگائی چوپال‘ لگائے گی۔ کانگریس کی جانب سے اس پورے مہینہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مودی حکومت کی غلط پالیسیوںاور کھانے پینے کی لازمی چیزوں پر جی ایس ٹی لگائے جانے کے خلاف لگاتار احتجاج اور مظاہرہ کیاجائے گا۔اس مہم کا اختتام28 اگست کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک میگا ریلی کے ساتھ ہوگا۔
کانگریس کے اس احتجاج کا نتیجہ کیا ہوگا،مہنگائی کم ہوگی یا نہیں لوگوں کو روزگارملے گا یا نہیں، کھانے پینے کی چیزوں پر لگایا جانے والا جی ایس ٹی حکومت واپس لے گی یا نہیں، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتالیکن یہ حتمی ہے کہ مہنگائی کے خلاف کانگریس کی سرگرمیوں کی وجہ سے بھارتیہ جنتاپارٹی اور حکومت حاشیہ پرآگئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ یاتو کانگریس مہنگائی کے خلاف احتجاج سے بازآجائے یا پھر لوگوں کی توجہ مہنگائی اور کانگریس کے احتجاج سے ہٹا دی جائے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے حکومت کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ پچھلی بار یعنی 5 اگست کو کالے کپڑے پہن کر کانگریس کے کارکنوں اور لیڈروں کے مظاہرے کے دوران پولیس نے سینئر اور معمر کانگریسی لیڈروں کی گرفتاری اور سڑکیں بند کرنے جیسے اقدامات کیے تھے۔اسی شام وزیر داخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کانگریس کے اس احتجاج کو رام مندر کے خلاف احتجاج سے جوڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ 5اگست وہی تاریخ ہے جب دو سال قبل وزیراعظم نریندر مودی نے 2020میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھاتھا۔بی جے پی کسی بھی حال میں یہ نہیں چاہتی کہ 5اگست کی تاریخ کو ملک کسی اور وجہ سے یاد رکھے۔ لیکن اس دن کانگریس نے کالے کپڑے پہن کرمہنگائی کے خلاف احتجاج کیااور پورے ملک کی توجہ اس جانب ہوگئی۔ بی جے پی نے کانگریس کے اس احتجاج کو رام مخالف شکل دینے کی کوشش کی۔ جب اس پر بھی بات نہیں بنی تو وزیراعظم نے کمان سنبھالی اور کالے کپڑے میں احتجاج کو ’ کالا جادو‘قرار دے ڈالا۔
ہوش ربا گرانی اور کمر توڑ مہنگائی کا بار اٹھائے کسی طرح سے جسم و جان کا رشتہ برقراررکھنے والے غریب عوام کیلئے وزیراعظم کے اس ریمارکس کو ’ بے حسی‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے ۔ہونا تویہ چاہیے تھا کہ حکومت اور بی جے پی کے دوسرے لیڈران مہنگائی اور بے روزگاری پر کانگریس کے الزامات اور احتجاج کا معقول جواب دیتے لیکن اس کے برعکس اس معاملہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے احتجاج کے دوران کانگریس لیڈروں کے کالے کپڑوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ رام مندر کا سنگ بنیاد 5 اگست کو رکھا گیا، اسی لیے کانگریس اس دن کالے کپڑے پہن کر سوگ منارہی ہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی پیچھے نہیں رہے اور کانگریس پر مندر مخالف ہونے کا الزام لگایا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس کی ’مہنگائی چوپال‘ کو کیا رنگ دیا جارہاہے ۔ماضی کے تجربات سامنے رکھتے ہوئے یہ توقع تو بہرحال نہیں کی جاسکتی ہے کہ حکومت مہنگائی پر کوئی معقول رویہ اختیار کرے گی اور کانگریس کے احتجاج و الزامات کا جواب دے گی۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کی بدحال معیشت، مہنگائی کے عفریت اور افراط زر کے جن کو قابو میں کرنا اس حکومت کے بس میں نہیں رہا اور نہ ہی اس کی کوئی مخلصانہ کوشش ہی کہیں نظرآرہی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS