صدیوں پر محیط ہند-مسلم ممالک تعلقات: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع
پروفیسر ایمریٹس(اسلامک اسٹڈیز)،جامعہ ملیہ اسلامیہ
ہندوستان اور عالم اسلام کا رشتہ دو چار برس کی بات نہیں، صدیوں کا یہ قصہ ہے۔ صرف مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں، افریقہ میں، جنوب مشرقی ایشیا میں، سوویت یونین کے زمانۂ اقتدار سے آزادی تک وسطی ایشیا کے ممالک سے ہمارا تعلق ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جو بات یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ تعلقات معاشی بنیادوں پر استوار ہوئے۔ ہندوستان دنیا کی قدیم ترین تہذیبی وراثتوں میں سے ایک ہے۔ یونان سے ہمارا رشتہ سکندر اعظم کے حوالے سے، مصر سے ہمارا رشتہ تہذیبی عناصر کے حوالے سے، وسطی ایشیا سے ہمارا رشتہ بدھ مت کے حوالے سے اور یوروپ سے ہمارا رشتہ آرین نسل کے حوالے سے چلا آ رہا ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، معاشی بنیادوں پر دور جدید میں یہ تعلقات اور زیادہ مستحکم ہوئے ہیں۔ ایک بات اور پیش نظر رہنی چاہیے کہ دنیا میں معاشی اعتبار سے اور سیاسی اعتبار سے آزادی کے بعد سے ہندوستان کا قد اور بڑا ہوا ہے۔ ہندوستان ناوابستہ تحریک کے تین بانیوں میں سے ایک تھا۔ ناصر اور ٹیٹو کے ساتھ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے مل کر ہی ناوابستہ تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اندرا گاندھی ناوابستہ ممالک کی قائد رہیں۔ ہندوستان میں اس کا باضابطہ اجلاس ہوا۔ اسی طرح سے دولت مشترکہ کا بھی اجلاس ہوا۔ اس کی قیادت بھی اندرا گاندھی نے کی۔ راجیو گاندھی نے بحیثیت وزیراعظم سارک تنظیم کو نئی سمت اور رفتار عطا کی۔ اٹل بہاری واجپئی نے پڑوسی ملکوں کی اہمیت کو یہ کہہ کر واضح کیا کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں، پڑوسی نہیں۔ منموہن سنگھ نے امریکہ سے اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی سرکار کو داؤ پر لگا دیا تھا اور اس میں کامیابی بہرحال انہیں ہی ملی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہندوستان کی خارجہ پالیسی نئی بلندیوں تک پہنچی ہے اور اس نے کبیر پنتھی رخ اپنایا ہے جس میں نہ تو کسی سے دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سے بیر۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ میں ہندوستان نے ایک غیرجانب دارانہ رویہ اپنایا اور وہ کامیاب بھی ہوا۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ دہلی میں جی-20 کا جو اعلامیہ جاری ہوا، اس میں امریکہ سمیت روس مخالف کسی ملک کو اس کی مذمت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، اس کے باوجود وہ دہلی ڈکلیئریشن کے طور پر منظور ہو گیا۔
جی-20 کے سربراہ اجلاس کی کامیابی میں جہاں اس بات کا دخل ہے کہ ہندوستان نے اس کو کامیاب کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا، حکومت ہند نے اس کے سارے انتظامات پورے اہتمام کے ساتھ کیے اور ہم نے دیکھا کہ جی-20 کی کانفرنس اب تک ہونے والی کانفرنسوں کے مقابلے ساری دنیا کی زیادہ توجہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب رہی وہیں جی-20 کی کانفرنس کی کامیابی میں اس بات کا بھی دخل رہا کہ افریقی یونین کے داخلے کے لیے اس گروپ کے دروازے پوری فراخ دلی کے ساتھ وا کر دیے گئے۔ اس طرح اب اگر آپ دیکھیں تو جی-20، جو دنیا کی تقریباً 80 فیصد معیشت کی حصہ دار ہے، اس میں افریقہ اورایشیا کے ممالک کی تعداد اچھی خاصی ہو گئی ہے اور وہ چاہیں تو ہندوستان جیسے ملک کی مدد سے دنیا کے معاملات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے سعودی عرب اور دیگر ممالک نے اپنی اہمیت کو منوایا ہے اور دنیا جو عالمی گاؤں بن چکی ہے، اس میں وہ ایک فیصلہ کن رول انجام دے سکتے ہیں۔ عالمی گاؤں بننے سے مراد یہ ہے کہ جدید نقل و حمل کے ذرائع میں فراق و فصل کے تمام تصورات کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے۔ زمین کی تنابیں اس قدر کھنچ گئی ہیں کہ اب دوری بے معنی ہو گئی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ جی-20 جیسے ادارے ایک مثبت رول ادا کریں۔ ہندوستان اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی خارجہ پالیسی میں جو وسعت،لچک، توازن اور اعتدال ہے، اس کو وہ اپنی داخلہ پالیسی کا بھی حصہ بنائے۔ ایک زمانے میں تکشیلا، نالندہ، وکرم شیلا جیسے تاریخی علم و دانش کے مراکز کا محور رہا ہندوستان اگر وشو گرو بننا چاہتا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیںہے اور نہ ہی یہ ناممکنات میں سے ہے بشرطیکہ ہندوستان پہلے اپنے ہر شہری کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کر دے اور اس کے لیے ہر طرح کے تعصب سے گریز کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے کہ دنیا میں کوئی خارجہ پالیسی اس وقت تک قبولیت عام اور دوام حاصل نہیں کرتی جب تک کہ اندرون ملک سب خیرت نہ ہو۔ حریت،اخوت اور مساوات کا اندرون ملک دوردورہ نہ ہو۔ n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS