ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور مغربی ایشیا

0

کے سی تیاگی
(سابق رکن پارلیمان)

پورا مغربی ایشیا بحران کے دور سے گزر رہاہے۔ کبھی مصر کے لیڈر جمال عبدالناصر کی قیادت نے پورے علاقے کو ایک لڑی میں پرونے کا فرض نبھایاتھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یوروپی اقتصادیات خستہ ہوگئی تھی اور نوآبادیاتی گرفت بھی کمزور ہوچلی تھی اور اسی علاقے سے برطانیہ سمیت کئی سامراجی ملک اپنا بوریا بسترباندھ چکے تھے۔ ہندوستان میں بھی انگریزی راج ختم ہو چکا تھا۔ پنڈت نہرو پہلے وزیراعظم بنے اور انہوں نے غیر ملکی حکومتوں سے لڑتی انقلابی تنظیموں کو اپنی حمایت دی اور بڑی طاقتوں کے خلاف ناوابستہ تحریک کے ملکوں کی تنظیم تیار کی، جس میں زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک شامل تھے۔ پنڈت نہرو کے علاوہ یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو، مصر کے جمال عبدالناصر، انڈونیشیا کے سکرنو، افریقی ملکوں کے اِنکروماہ کلیدی طور پر منظم طریقے سے ایک مستحکم اور مضبوط آواز دینے میں کامیاب رہے۔ اسی دوران ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا میں غیرملکی حکمرانوں کی حکومت کے خلاف عوام کے بغاوتی تیوروں کو ناوابستہ تحریک کے ملکوں کی کھلی حمایت ملتی رہی اور آزادی کی جدوجہد میں تیزی آتی رہی۔ 1948 میں امریکی سازش کے تحت اسرائیل کے قیام کا اعلان کیاگیا اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین اس کے بڑے پیروکار بن کر ابھرے۔ مغربی ایشیا میں بدامنی کا دور شروع ہوا۔ فلسطینی شہریوں کے حقوق کی لڑائی تیز ہوچکی تھی۔ اقوام متحدہ اور باہرانہیں وسیع حمایت ملتی رہی۔ ایک دیگر انقلابی پروگرام کے تحت مصر کے صدر ناصر نے سوئزنہرکوقومیانے کااعلان کرکے پوری دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ یوروپ کے ملکوں کی ایشیا اورافریقی ملکوں میں پوری تجارت اسی نہر کے ذریعے ہوتی تھی اور اس کا مرکزی نکتہ مصرتھا۔ ناصر کے اس قدم کی امریکی اور یوروپی ملکوں کے ذریعے کئی مذمتیں کی گئیں اور کئی طرح سے پابندیاں لگائی گئیں۔ ہندوستان سمیت تیسری دنیا کے سبھی ممالک مصر کے ساتھ کھڑے رہے اور آخرکار برطانوی حکمرانوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اسے اس دور میں عرب ملکوں کے وقار کا سب سے بڑا واقعہ ماناگیا۔
اقتصادی اور سماجی جکڑبندیوں میں جکڑے تقریباً تمام بڑے مغربی ایشیا کے ممالک منظم ہونے لگے۔ کئی موقعوں پر ان ملکوں کا آزاد اور قومی زاویۂ نظر امریکی-یوروپی تسلط سے ٹکراتا رہا۔ ہندوستان مسلسل ان ملکوں کی خودمختاریت اور آفاقیت کی جدوجہد کی حمایت کرتارہا۔ عرب ملکوں کے بعد ہندوستان پہلا ملک تھا جس نے فلسطین کو ایک آزاد ملک کے طور پر منظوری دے کر امریکی سلطنت کو کھلی چنوتی دی تھی۔ عرب ملکوں نے بھی کئی تاریخی موقعوں پر ہندوستان کا ساتھ دیا۔ مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان مغربی ایشیا کے ملکوں پراپنا حق مان کرچلتا تھا لیکن اسے لگاتار منہ کی کھانی پڑی۔ ایک مشہور مثال کشمیر کے سلسلے میں ہے۔ پاکستان کی حکومت کشمیر میں شہری اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھاتی رہی ہے۔ 1992 میں نرسمہا راؤ سرکار کے دوران ایک دور ایسا آیا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اور جنیوا میں بڑا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوا۔ حکومت ہند نے بھی ایک بھاری بھرکم وفد بھیج کر اپنا موقف رکھنے کا طے کیا۔ اس وفد میں اٹل بہاری واجپئی، فاروق عبداللہ سمیت محکمۂ خارجہ کے سبھی بڑے وزیر اور عہدہ دار موجود تھے۔ دودن تک گرماگرم بحث ہوتی رہی۔ آخری دن اس پرووٹنگ کرنے کی نوبت آگئی۔ اجلاس میں مسلم ملکوں کی اچھی حصے داری تھی۔ دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح ایران کے ووٹ سے حالات میں تبدیلی آئی اور ہند، پاک کی مذمتی تجویز کو مسترد کرنے میں کامیاب رہا۔
آج پورے مغربی ایشیا میں بحران ہے۔ کئی مقبول لیڈروں کو ایک سازش کے تحت اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا جن میں لیبیا کے صدر کرنل قذافی اور عراق کے مقبول لیڈر صدام حسین شامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح چار دہائی کی طویل جدوجہد کے بعد امریکہ اور برطانیہ کو افغانستان سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ تازہ مثال شام کی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح انتہا پسند مسلم تنظیم کی تشکیل کرکے ریاستوں کی خود مختاریت کو چنوتی دی جاتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کا کردار شام سمیت کئی ملکوں میں امریکہ کے ذریعے ہی چلایا جاتا رہا ہے۔ ثبوت موجود ہے کہ کس طرح ’القاعدہ‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو تیار کرنے میں امریکی حکمرانوں کا راست ہاتھ ہے۔ 9/11 کے بعد مغربی ایشیا میں امریکی مداخلت بڑھی ہے اور آج کئی ملکوں کی حکومتیں امریکہ کے اشارے پر چلتی ہیں۔ فلسطین اور الاقصیٰ مسجد جیسے سوالوں پر ضرور عرب اتحاد نظر آتاہے۔ تیسری دنیا میں بھی زیادہ تر ممالک اقتصادی تعاون کے نام پر امریکی مدح سرائی میں لگے ہیں۔
بے شک ہندوستان ایک بڑاکردار نبھائے گا، مغربی ایشیا کے ملک ایسا قبول کر رہے ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان نے بھی مغربی ایشیا کے ملکوں کو مایوس ہی کیاہے۔ اب ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں پہلے جیسی دھار نہیں رہی جب اقوام متحدہ کی تجویزوں پر ہندوستان کے رول کی گونج سنائی پڑتی تھی۔ اسرائیل پریم بھی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزوبن گیاہے جس کی وجہ سے عرب دنیا میں ہماری قبولیت کم ہوئی ہے۔ فلسطین پرہوتے مظالم پراقوام متحدہ میں ہمارا کئی موقعوں پر ڈھیلا ڈھالا رخ رہا ہے۔ عراق جنگ میں ہندوستان اور جارح رخ اختیار کر سکتا تھا لیکن ہماری خارجہ پالیسی میں آئی اس تبدیلی نے ہمیں کئی موقعوں پر شرمسار ہی کیا ہے۔ آج ہندوستان کی بڑھتی طاقت کو سبھی قبول کر رہے ہیں لیکن ہمیں مضبوطی کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو نظرانداز نہیں کرناہوگا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS