بدلتے حالات سے پیدا ہوتے اندیشے

0

دنیا کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ یوکرین جنگ کے شروع ہونے کے بعد حالات جس تیزی سے بدلے ہیں، اس کا اندازہ پہلے سے نہیں تھا۔ پہلے لگتا تھا کہ یوکرین کے خلاف روس اگر فوجی کارروائی کرے گا تو اس کی یہ کارروائی 2014کی کریمیا والی کارروائی جیسی ہوگی۔ یوکرین کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے وہ اطمینان کر لے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے یوکرین کی خوب مدد کی۔ اس سے روس کو بھی جنگ شدت سے لڑنی پڑی۔ روس کے ساتھ چین کھڑا ہو گیا۔ اس کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ روس کی اگر شکست ہو گئی تو امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی پوری توجہ اسی پر مرکوز ہو جائے گی اور حالات سے نمٹنا اس کے لیے مشکل ہوگا مگر روس جتنی شدت سے اور جتنے دنوں تک جنگ جاری رکھ سکے گا، اسے خود کو مضبوط بنانے کا اتنا ہی زیادہ موقع ملے گا۔ دنیا کو یہ دکھانے کا بھی موقع ملے گا کہ امریکہ دوستی کی باتیں کرتا ضرور ہے مگر دوستی نبھاتے وقت وہ اپنے مفاد کو نظرانداز نہیں کرتا۔ یوکرین جنگ میں الجھے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کا فائدہ اٹھاکر چین کچھ بڑے کام کرنا چاہتا ہے جس کا اندازہ بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے مصالحت کرنے سے ہوا۔ ان دونوں مسلم ملکوں کے بارے میں یہ امید عام طور پر نہیں تھی کہ ان کے درمیان مصالحت ہو جائے گی اور اس کا مثبت اثر دوسرے ملکوں پر پڑے گا۔ ایسا ہوا۔ اب خبر یہ ہے کہ چین بنگلہ دیش اور میانمار کے مابین رشتہ استوار کرانا چاہتا ہے۔ کورونا کے دور میں یوروپی ملکوں نے جس طرح ٹرمپ اور ان کے ساتھی لیڈروں کی کوششوں کے باوجود کورونا وائرس کو ’چائنا وائرس‘ کہنے سے انکار کر دیا تھا،اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوا تھا کہ یوروپ کے ملکوں کے امریکہ سے تعلقات ضرور ہیں لیکن یہ ممالک چین کو پوری طرح نظر انداز کرنا نہیں چاہتے ۔ اس کے بعد اوکس کی تشکیل کے وقت امریکہ نے برطانیہ کو ساتھ رکھااورفرانس کے مفاد کو نظرانداز کر دیا، اس سے بھی یہی لگا کہ مغربی یوروپ کے ملکوں سے امریکہ کے وہ تعلقات نہیں رہے جو کبھی تھے۔ یہ بات فرانس کے صدرایمینوئل میکروں کے دورۂ چین میں بیانات سے اور زیادہ واضح ہوگئی۔
امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ بے حد اہم ہے۔ اس خطے پرآسانی سے وہ کسی اور ملک کے بڑھتے دائرۂ اثر کو قبول نہیں کرے گا۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ چین کو روکنے کے لیے اس کے پاس وقت بہت کم بچا ہے۔ اقتصادی محاذ پر چین اس کے بہت قریب آچکا ہے۔ متعدد ممالک اس کے مقروض ہیں۔ وہ اس کے زیادہ خلاف نہیں جائیں گے، کیونکہ ان کے ایسا کرنے پر چین اگر ان سے قرض لوٹانے کے لیے کہے گا تو وہ قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوںگے۔ ان حالات میں چین اگر کسی جنگ میں الجھ جاتا ہے تو اس کے بہت سے مسئلوں کا حل نکل آئے گا مگر چین حالات حاضرہ سے واقف ہے۔اسی لیے اس نے ابھی تک تائیوان کو مرعوب کرنے پر ہی زیادہ توجہ دی ہے، اس سے جنگ کرنے کے تئیں سنجیدگی ظاہر نہیں کی ہے جبکہ تائیوان کو وہ اپنا علاقہ مانتا ہے، اسے اپنے ساتھ ہرحال میں ملانا چاہتا ہے تو اس سے جنگ کرنے سے کب تک بچتا رہے گا؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔
یوکرین جنگ نے چین کو اور دیگر ملکوںکو یہ سکھا دیا ہے کہ ایک طاقتور ملک کے خلاف امریکہ کس حد تک جاتا ہے اور اسے تباہ کرنے کے لیے اس کے بس میں کیا کیا کرنا ہے، اس لیے اب چین یا کسی حد تک اس کے جیسا کوئی طاقتور ملک کسی جنگ میں الجھتا ہے تو وہ امریکہ کی پابندیوں کا کاٹ پہلے کرنا چاہے گا تاکہ اس کا نقصان کم سے کم ہو۔ ایسی صورت میں امریکہ کے لیے اپنے اتحادیوں کی مدد کرنا یا اتحادیوں کی مدد کے بہانے اپنے مفاد کا خیال رکھنا پہلے کی طرح آسان نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت یہ بات سمجھ رہی ہے اور غالباً اسی لیے آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ان ملکوں کو مضبوط بنانے پر توجہ دے رہی ہے جن کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ وہ اس کے اتحادی ہیں جبکہ ان ملکوں میں بھی دوسری عالمی جنگ میں جاپان پر وہ ایٹم بم گراکر اس کے دو شہروںکو تباہ کر چکا ہے، شمالی کوریا اورجنوبی کوریا کے انضمام میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے اور اس کا اظہار شمالی کوریا کے لیڈران کرتے رہے ہیں، البتہ آسٹریلیا کا معاملہ الگ ہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تائیوان کے خلاف اگر چین جنگ چھیڑتا ہے تو جاپان اور جنوبی کوریا، امریکہ کو خوش کرنے کے لیے چین کے خلاف تائیوان کا دیں گے۔ کیا اس وقت امریکہ براہ راست چین سے جنگ کرے گا؟ یہ ایک سوال ہے اوراس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی اقتصادی پوزیشن کیا ہے اورچین کے خلاف اس کے اتحادی بننے کے لیے کتنے اتحادی تیار ہوں گے، البتہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ایسی کوئی بڑی چنوتی نہیں۔ عرب ملکوں کے مقابلے اسرائیل بہت طاقتور ہے، اسرائیلی لیڈروں کی دیرینہ خواہش ہے کہ اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع ہو، اسرائیل عظمیٰ کا قیام ہو، امریکہ نے اگر انہیں بالواسطہ طور پر اپنی خواہش پوری کرنے کی اجازت دے دی تو کیا چین اور روس عرب ملکوں کی مدد کریں گے؟ ممکن ہے کریں اور کسی حد تک اسی طرح کریں جیسے یوکرین کی مدد امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک کر رہے ہیں لیکن اس سے حالات میں کیا بڑی تبدیلی آئے گی؟ شام اور عراق کے حالات ویسے بھی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ ترکیہ میں کرد علیحدگی پسندی کا مسئلہ ہے۔ نیوم شہر بسانے کی وجہ سے سعودی حکومت سے اس علاقے کے قدیم باشندے ناراض ہیں، چنانچہ شام، عراق، اردن اور ترکیہ کے جنوبی اور سعودی عرب کے شمالی حصے کی پوزیشن اگر کسی جنگ کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے تو کسے حیرانی ہوگی اور حیرانی اس لیے بھی نہیں ہوگی، کیونکہ دنیا کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں اور ان بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ کو عرب ملکوں کے مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے اور عرب ممالک ماضی کی طرح اس کی تقلید کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خود سعودی حکومت ایسا نہیں کرنا چاہے گی، کیونکہ ٹرمپ کی وہ بات اس کے لیے بھلانا آسان نہیں ہوگا جو امریکہ کا صدررہتے ہوئے انہوں نے کہی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی فوج کی مدد کے بغیر سعودی شاہ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS