ہماری دنیا کا بدلتا منظر نامہ: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع

سوویت روس کے سقوط سے پہلے یہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی اور امریکی اور روسی علاقوں میں سرد جنگ جاری تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، جمال عبدالناصر اور مارشل ٹیٹو نے ایک غیر جانب دار بلاک کی بنیاد رکھی تھی لیکن ہم جیسا جانتے ہیں، ان تینوں عالمی رہنماؤں کا جھکاؤ بڑی حد تک روس کی طرف تھا اور امریکہ نے جو سیاسی کھیل کھیلے اور دفاعی منصوبہ بندی کے جو مظاہر پیش کیے، اس سے روس بحران کا شکار ہوتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر روس کے افغانستان میں غاصبانہ قبضے نے پوری کر دی۔ جب تراکی سے نجیب اللہ تک ان کی کٹھ پتلی سرکاریں بہت دیر تک ان کے قبضے کو بنائے رکھنے میں ناکام رہیں، اور اس طرح سوویت روس جو دنیا کی ایک بڑی طاقت تھی، افغانستان میں اس کے نواستعماری عزائم کی نہ صرف بھینٹ چڑھا بلکہ اس کا ایسا عبرت ناک زوال دیکھنے کو ملا کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ میخائل گورباچوف نے گرتی ہوئی معیشت، تیزی سے روبہ زوال سیاسی اثر اور کمزور پڑتی ہوئی سوویت روس کی گرفت کا احساس کر لیا اور پھر انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ بغیر کسی خون خرابے کے سوویت بلاک میں شامل ملکوں کو صحیح معنوں میں خودمختاری دے دی جائے اور سوویت روس میں شامل تمام ریاستوں کو بڑی حد تک آزاد کر دیا جائے۔ 1917 کے سوویت روس میں کمیونسٹ انقلاب نے جس طرح اس وقت دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اسی طرح 1991 میں جو اچانک اور غیر متوقع تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اس کے لیے بھی شاید دنیا پوری طرح تیار نہیں تھی۔
اس بیچ عالمی منظر نامے پر دنیا اب یک قطبی رہ گئی اور امریکہ جو اب تک روس سے برسرپیکار تھا وہ اب دنیا کا تن تنہا واحد رہنما بن چکا تھا لیکن اسی بیچ میں امریکہ کو 1979 میں ایک شدید جھٹکا اس وقت لگا جب اس کو ایران میں اس کے عزائم اور حلیف شہنشاہ کو امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے ہاتھوں ہزیمت اور شکست ہوئی اور شہنشاہ ایران کو اپنے ملک سے فرار ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ امریکہ نے ایران کو شکست دینے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوا۔ اس نے اپنے عرب حلیفوں کے ساتھ مل کر پہلے صدام حسین کو ایران کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور 8 سال تک عراقی اور ایرانی ایک ایسی جنگ لڑتے رہے جو خود ایک مسئلہ تھی، کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی تھی۔ امریکہ دنیا کی تاریخ ہی نہیں بدلنا چاہتا تھا بلکہ ایک نئے جغرافیہ کو بھی جنم دینا چاہتا تھا جس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح پہلے صدام، بعد میں قذافی، اس کے بعد بشار الاسد کو ٹارگیٹ کیا گیا۔ ان میں سے اگر کوئی بچ پایا تو اتفاق سے وہ صرف بشار الاسد تھے۔ ادھر افغانستان میں بھی سوویت روس کی شکست کے بعد برسراقتدار آنے والے اعتدال پسند مذہبی رہنماؤں کو بہت دیر جمنے نہیں دیا گیا اور سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے طالبان کو افغانستان میں مسلط کر دیا گیا اور صبغت اللہ مجددی، برہان الدین ربانی، مولوی یونس خالص اور گلبدین حکمت یار وغیرہ کو بے دخل کر دیا گیا۔ جب ملا عمر کی قیادت والے طالبان سے بھی بہت دن امریکہ کی نہیں نبھی تو اس نے ایک بار پھر اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر طالبان کو بھی چلتا کیا اور پھر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی بظاہر سرپرستی کی لیکن ساتھ ہی طالبان سے اندر ہی اندر سلسلہ جنبانی بھی قائم رکھا اور افغانستان کو مستحکم نہ ہونے دینے، جدید اور ترقی پسند راستوں پر آگے گامزن نہ ہونے دینے کے لیے ایک بار پھر بظاہر دنیا کو یہ دکھاتے ہوئے کہ ہم طالبان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، انہیں کے سپرد ایک بار پھر افغانستان کو کر دیا۔
لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ روس کی طرح امریکہ جس طرح سے یک قطبی طاقت بن کر ساری دنیا کا چودھری بنا ہوا تھا، اس کی وہ حیثیت اب خطرے میں ہے اور جس طرح روس نے پوتن کی قیادت میں یوکرین میں اپنے جارحانہ عزائم سے پورے یوروپ کو ہلا رکھا ہے اور نہ صرف یوکرین بلکہ پورا یوروپ ہی ایک اعصابی بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف چین کا بڑھتا اثر و نفوذ امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے حلیفوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یوروپ میں امریکی اثر و رسوخ میں پڑنے والی دراڑوں کو فرانسیسی صدر کے اس بیان میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم امریکہ کے حلیف ہو سکتے ہیں ماتحت نہیں۔ پھر جس طرح انہوں نے روس کا دورہ کیا وہ خود امریکہ کے لیے چشم کشا ہے۔ ادھر امریکہ نے جس ملک کو اینٹی کمیونسٹ بلاک کے طور پر سوویت روس کے خلاف عالم اسلام کو بدظن کرنے کے لیے استعمال کیا تھا اور جس نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ملکوں میں کمیونزم اور سوویت روس کے خلاف ہراول دستے کا کام کیا، آج وہ بھی امریکہ سے دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے یعنی سعودی عرب۔ سعودی عرب نہ صرف چین سے اپنے اقتصادی تعلقات بہتر کر رہا ہے، ترقیاتی منصوبوں میں اشتراک کی بات کر رہا ہے، وہیں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے اشارے پر اور اس کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کا قریب آنا یقینی طور پر امریکہ کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا موجب ہو سکتا ہے۔ چونکہ اگر سعودی عرب اور ایران واقعتا ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیںتو پھر عالم اسلام کیا ساری دنیا میں شیعہ سنی اتحاد ہر اعتبار سے ثمرآور ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایران اور سعودی عرب او آئی سی میں شامل رہے ہیں، ایران اور سعودی عرب اگر ایک دوسرے کے سچ مچ قریب آ گئے، جیسا کہ امید کی جا رہی ہے تو پھر یمن، عراق، شام اور بحرین میں جو تنازعات مسلکی بنیادوں پر پریشانی کا باعث بنتے ہیں وہ خود آہستہ آہستہ غیرمؤثر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی اور ایران کے تعلقات دونوں ملکوں کے اقتصادی رشتوں کو بھی مضبوط کریں گے اور تیل سپلائی کرنے والے ملکوںکی حیثیت سے دونوں ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں اور ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ آپ اگر دھیان دیں تو ایک صدی پہلے سے لے کر اور بیسویں صدی کے نصف اول تک سعودی عرب برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ اس کے بعد وہ امریکہ کے خیمے میں شامل ہو گیا اور اب جبکہ ایک نئی نسل سعودی عرب میں پروان چڑھ رہی ہے، وہ اس کے سیاہ سفید کے فیصلے کر رہی ہے جس کے سرخیل ولی عہد محمد بن سلمان ہیں تو اگر وہ چین کے ساتھ اپنے رشتے استوار کرتے ہیں اور اپنے قومی، معاشی اور علاقائی مفادات کو بنائے رکھنے کے لیے چین اور ایران کے ساتھ کیوں بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتے؟
ترکیہ گزشتہ بیس سال سے رجب طیب اردگان کی قیادت و سیادت میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ وہ دفاعی ہتھیار سازی اور حکمت عملی وضع کرنے میں اپنی ایک پہچان بنا چکا ہے۔ آج روس اور یوکرین کے بیچ میں اگر کوئی ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ہے تو وہ ترکیہ ہی ہے۔ یوروپی یونین کے ایک ممبر کی حیثیت سے وہ وہاں کا کاسہ لیسی کرنے والا ملک بن کر نہیں بلکہ پوری طاقت کے ساتھ ایک فیصلہ کن رول کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جیسے برونئی، ملیشیا، انڈونیشیا میں چین ایک دفعہ پھر اچھے حلیف کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے بعد اب چین بنگلہ دیش اور میانما رکے بیچ بھی نئے رشتوں کے قیام کے لیے ایک کلیدی رول انجام دے سکتا ہے۔ سینٹرل ایشیا کے مسلم ممالک اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ممالک امریکہ کے اثرات سے باہر آنے کے لیے اس موقع کا واقعی استعمال کر سکتے ہیں۔
لیکن یہاں ایک بات واضح رہنی چاہیے اور اسے چین کو بھی خوب سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا اب کسی ایک کی چودھراہٹ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور ہندوستان سے بہتر تعلقات کے بغیر چین کا اثر و رسوخ دنیا میں بہت دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسرے چین کو دنیا میں پاؤں پھیلانے سے پہلے اپنے ملک بالخصوص سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی سے باز آنا ہوگا۔ سری لنکا کے معاشی بحران کے لیے جس طرح چین کو واقعتا مورد الزام قرار دیا گیا، اس کی وجہ سے چین کی ساکھ بھی دنیا میں کم داغدار نہیں ہوئی ہے۔ ہندوستان علمی طور پر تو وشوگرو بننا چاہتا ہے لیکن اس کے استعماری عزائم نہیں ہیں۔ ہندوستان کا مذہبی اور فکری مؤقف یہ ہے کہ یہ ساری دنیا ایک آفاقی کنبے کی طرح ہے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے۔ دہشت اور وحشت کا کاربار ساری دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہے، اس لیے ہمیں دہشت گردی کو اچھے اور برے خانوں میں نہیں باٹنا چاہیے اور جو جنگ روس اور یوکرین میں ہو رہی ہے، وہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ساری انسانیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اس لیے اقتدار کے بھوکے چاہے روس و یوکرین میں ہوں یا سوڈان میں، انہیں ایمانداری سے ناکام بنانا چاہیے اور انسانیت کو ہر قیمت پر بچانا چاہیے۔n
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleسپریم کورٹ نے گجرات کے 68 جوڈیشل افسران کی ترقی پر روک لگائی
Next articleہندوستان کی خارجہ پالیسی اور مغربی ایشیا
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh