صبیح احمد
ابھی حال ہی میں عالمی یوم آبادی کے موقع پر ہندوستان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعہ آبادی پر قابو پانے کی بات کرتے ہوئے آبادی میں عدم توازن کی صورتحال پیدا نہ ہونے کی بات کہی۔ جہاں تک آبادی میں عدم توازن کی بات ہے تو وزیراعلیٰ یوگی کی اس سے مراد کیا تھی؟ کیا وہ ہندوستان میں آباد تمام فرقوں اور برادریوں کی آبادی برابر کرنے کی بات کر رہے تھے، یا وہ اس بات کو یقینی بنانے کی بات کر رہے تھے کہ فی الحال مختلف فرقوں یا برادریوں کی جو آبادی ہے، اس تناسب میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ یعنی اکثریت اور اقلیت کی آبادی میں جو فرق ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ یقینا یوگی آخرالذکر فارمولے پر زور دے رہے تھے۔ اس کے فوراً بعد برسراقتدار پارٹی کے ہی ایک اور سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا یہ بیان سامنے آیا کہ ’بے تحاشہ آبادی کا بڑھنا کسی مذہب کا نہیں، یہ ملک کا مسئلہ ہے، اسے ذات پات، مذہب سے جوڑنا جائز نہیں۔‘ مختار عباس نقوی کے اس تبصرہ کو بہت سے لوگ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان کی مخالفت میں دیکھ رہے ہیں۔ بہرحال یہ بیان کسی کی مخالفت میں ہو یا نہ ہو، یہ الگ معاملہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ اس بڑھتی آبادی کو کسی خاص مذہب یا فرقہ سے جوڑنا قطعی جائز نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی خاص مذہب یا فرقہ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
آج ملک کے کسی بھی کونے یا حصے میں چلے جائیں، بڑھتی آبادی کا خوفناک منظر ہر جگہ نظر آجائے گا۔ خواہ میٹرو اسٹیشن ہو یا ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، روڈ، ہائی وے، بس اسٹاپ، اسپتال، شاپنگ مال، مارکیٹ، یہاں تک کہ کوئی سماجی یا مذہبی اجتماع، ان مقامات پر ہر وقت جم غفیر نظر آتا ہے۔ یہ ملک میں حد سے زیادہ آبادی کا واضح اشارہ ہے۔ آخری بار 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی 1,210,193,422 تھی۔ اس کا مطلب ہندوستان نے ایک ارب کا نشان جب ہی پار کرلیا تھا۔ آج یہ چین کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے اور مختلف مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ2025تک چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہندوستان آبادی کے معاملے میں دنیا کا نمبر ایک ملک بن جائے گا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت ہند کے ذریعہ شروع کردہ آبادی پالیسی، فیملی پلاننگ اور فلاحی پروگراموں کے سبب شرح زرخیزی میں مسلسل گراوٹ آئی ہے، آبادی میں حقیقی استحکام 2050 تک ہی آ سکتا ہے۔ آخر ہندوستان میں اس بے تحاشہ بڑھتی آبادی کی وجہ کیا ہے؟ دراصل اس کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ شرح اموات کے مقابلے شرح پیدائش اب بھی زیادہ ہے۔ ہم لوگوں نے شرح اموات کو کم کرنے میں کامیابی تو حاصل کرلی ہے لیکن شرح پیدائش کے حوالے سے ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ آبادی سے متعلق پالیسیوں اور دیگر اقدامات کے سبب شرح زرخیزی میں کمی آتی رہی ہے لیکن دیگر ملکوں کے مقابلے یہ اب بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ وجوہات ہمارے ملک میں موجود مختلف سماجی ایشوز سے جڑی ہوئی ہیںجو بڑھتی آبادی کے لیے اہم فیکٹر ہیں۔
حالانکہ قانونی طور پر لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال طے ہے لیکن سماج کے بہت سارے طبقوں میں جلد شادی کا تصور اب بھی موجودہے اور لڑکیوں کی شادی بہت کم عمر میں ہی کر دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں شادی کو ایک مقدس ذمہ داری بھی تصور کیا یا جاتا ہے جہاں ہر عورت کی بچہ پیدا کرنے کی عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ کے لیے ایک اور فیکٹر غربت اور ناخواندگی ہے۔ غریب کنبوں میں یہ عام خیال ہے کہ کنبہ کے ارکان کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، آمدنی کرنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ضعیف العمری میں اپنی دیکھ بھال کے لیے انہیں زیادہ بچوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ناخواندگی بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ پیدائش پر کنٹرول اور مانع حمل طریقوں کے استعمال کے معاملے میں ہندوستان کے لوگ اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ بہت سارے لوگ اس موضوع پر بات کرنا بھی معیوب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ تو ان چیزوں سے مکمل طور پر واقف بھی نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ایک ثقافتی رواج یہ بھی ہے کہ روزی روٹی کمانے والے بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ اس دقیانوسی سوچ کا والدین پر اس وقت تک بچے پیدا کرنے کا دبائو بنا رہتا ہے جب تک کہ بیٹا نہ پیدا ہو جائے۔ ا س کے علاوہ بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار جیسے ملکوں سے غیر قانونی طور پر نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کا بھی آبادی میں اضافہ میں اہم کردار ہوتا ہے۔ حد سے زیادہ آبادی کی وجہ سے آج آزادی کے 75 سال بعد بھی ہمارے ملک کا ڈھانچہ اتنا مستحکم نہیں ہوپایا ہے جتنا کہ ہونا چاہیے تھا جس کا اثر روزگار، مین پاور کے استعمال، انفرااسٹرکچر پر دبائو، ملک کے وسائل کا ضرورت سے زیادہ اور بے ہنگم استعمال کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بڑھتی آبادی کے سبب غذائی پیداوار اور اس کی تقسیم میں تناسب بھی قائم نہیں ہو پاتا ہے۔
مذکورہ حقائق کے باوجود ہندوستان میں آج تک آبادی کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور پائیدار پالیسی وضع نہیں کی جاسکی ہے جو بہت ہی افسوس اور تشویش کی بات ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق بہت جلد ہندوستان آبادی کے لحاظ سے چین کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ حالانکہ امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں تمام مذہبی گروپوں کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوؤں ہی نہیں، مسلمانوں، عیسائیوں، بدھ مت، سکھوں اور جینیوں یعنی ہر کمیونٹی میں آبادی کے اضافہ کی شرح کم ہوئی ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح میں ہندوؤں کے مقابلے زیادہ کمی آئی ہے۔ 2011 کی رائے شماری کے مطابق ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ کی شرح 16.76 فیصد ہے جبکہ 10 سال پہلے یہ شرح 19.92 فیصد تھی۔ اسی کے مقابلے ملک میں پہلے مسلمانوں کی آبادی 29.5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی جو اب کم ہو کر 24.6 فیصد ہو گئی ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی آبادی کے اضافہ میں تقریباً 5 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ہندو آبادی کی رفتار تقریباً 3 فیصد کم ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ روایتی طور پر مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح ہندوؤں سے زیادہ رہی ہے لیکن یہ خوف پھیلانا یا تو جہالت ہے یا پھر سازش کہ مسلم آبادی 2035 تک ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی۔
آبادی کا دباؤ ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن کچھ لوگ صرف مسلم آبادی کو مسئلہ بتاتے ہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو نہیں، اگر ایسا ہوتا تو بار بار ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ نہیں دیتے۔ بنگلہ دیشی دراندازی بھی ایک حقیقی مسئلہ ہے لیکن اسے روکنے کی کوشش سے زیادہ توجہ اس سے خوفزدہ کرنے پر ہے۔ بہار اور اترپردیش کے ہندوؤں میں آبادی بڑھنے کی شرح کیرالہ اور تمل ناڈو کے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح سے دو گنا تک زیادہ ہے۔ تو کیا یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ ان ریاستوں کے ہندوؤں نے کچھ رہنماؤں کی زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل پر عمل کیا ہے؟ تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک کو درپیش اس سنگین مسئلہ پر جب بھی بات ہوتی ہے تو کسی نہ کسی بہانے اس کے ساتھ مذہبی پہلو جوڑ دیا جاتا ہے۔ بڑھتی آبادی کی تمام تر ذمہ داری اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے سر پر ڈال دی جاتی ہے اور پھر پلہ جھاڑ کر تمام لوگ بیٹھ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ جہاں تھا، وہیں رہ جاتا ہے اور یہ مسئلہ سال در سال سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
[email protected]