آئیڈیل ہیں دروپدی مرمو

0

وطن عزیز ہندوستان کا شمار دنیا کے قدیم جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اس کے جمہوری نظام کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے کہ کوئی شخص ملک کا بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے وزیراعظم کی مثال دی جا سکتی ہے اور ملک کی نئی صدر دروپدی مرمو کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ آج انہیں عہدے کا حلف بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن نے دلایا۔ حلف لینے کے بعد صدر جمہوریہ نے کہا، ’آزاد بھارت میں پیدا ہونے والی میں پہلی صدر بن گئی ہوں۔‘
اس میں دو رائے نہیں کہ ہر اتحاد صدر،نائب صدر کے لیے امیدوار کا انتخاب سیاسی حالات کے مدنظر کرتا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کرتا ہے کہ اس کا اثر اس کے ووٹ بینک پر کیا پڑے گا مگرسچ یہ بھی ہے کہ ان بڑے عہدوں کے لیے انتخاب جس ذات، برادری یا مذہب کے لوگوں میں سے کیا جاتا ہے، اس کا مثبت اثر اس ذات، برادری یا مذہب کے لوگوں پر پڑتا ہے، اس لیے یہ امید غیر فطری نہیں کہ دروپدی مرمو کے انتخاب کا مثبت اثر اس کمیونٹی کے لوگوں پر پڑے گا جس سے ان کا تعلق ہے اور ان کمیونٹیوں کے لوگوں پر بھی پڑے گا جو دبی کچلی سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ دروپدی مرمو کا بھارت کا صدر بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کسی نے صلاحیتوں کے حصول کی کوشش کی ہے، آگے بڑھنے کی جستجو کی ہے، مثبت سوچ کے ساتھ محنت کی ہے تو اس کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی، البتہ وہ لوگ جو حالات بدلنے کے لیے مسلسل جدوجہد نہیں کرتے، حالات کا رونا روتے رہتے ہیں، موقع پیدا کرنے کے لیے نہیں، موقع کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، زندگی کے ذرا سے ہچکولے انہیں مایوسیوں کے اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں اور ایسے لوگ اسی اندھیرے کی نذر ہو جاتے ہیں مگر دروپدی مرمو کے حالات زندگی پر غور کرنے پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حالات سے ہار ماننے والی کبھی نہیں رہیں، خاموشی سے محنت کرنے والی رہی ہیں اور ان کی اسی خاموش محنت نے انہیں اس اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا، البتہ اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ بی جے پی کی سربراہی والے اتحاد، این ڈی اے نے ان کی اہمیت سمجھی، انہیں صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار بنایا۔ اس کا فائدہ 2024 کے عام انتخابات اور اسمبلی انتخابات میں اسے ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی صدارتی انتخاب میں غیر این ڈی اے پارٹیوں کے اتحاد کی حقیقت نظر آچکی ہے، اس لیے دروپدی مرمو کی جیت پر این ڈی اے، بالخصوص بی جے پی کو بجا طور پر خوش ہونا چاہیے، کیونکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، لکش دیپ میں 94.8 فیصد آدیواسی ہیں جبکہ میزورم میں ان کی تعداد 94.4 فیصد ہے۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں میزورم کی 40 رکنی اسمبلی کے لیے ہوئے انتخاب میں بی جے پی 7.6 فیصد ووٹوں کے ساتھ ایک سیٹ جیت سکی تھی۔ 86.5 فیصد آدیواسیوں والے ناگالینڈ میں 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 15.3 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ 60 رکنی اسمبلی میں وہ 12سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ آدیواسیوں کی بڑی تعداد کے لحاظ سے میگھالیہ چوتھے نمبر پر ہے۔ 86.1 فیصد آدیواسیوں والی اس ریاست کے 2018 کے اسمبلی انتخابات میں 60 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو2سیٹیں ہی ملی تھیں۔ اسے 9.6 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اروناچل پردیش میں 58.8 فیصد آدیواسی ہیں۔ 2019 کے اسمبلی الیکشن میں 19.89 فیصد ووٹوں کے ساتھ بی جے پی نے 60 رکنی اسمبلی میں 41 سیٹوں پر جیت درج حاصل کی تھی۔
مرکز کے زیرانتظام دیگر علاقوں اور ریاستوں میں بھی آدیواسیوں کی خاصی آبادی ہے۔ دادرا و نگر حویلی میں 52 فیصد،منی پور میں 35.1 فیصد، سکم میں 33.8 فیصد، تریپورہ میں 31.8 فیصد، چھتیس گڑھ میں 30.6 فیصد، جھارکھنڈ میں 26.2، اوڈیشہ میں 22.8، مدھیہ پردیش میں 21.1، گجرات میں 14.8، راجستھان میں 13.5، آسام میں 12.4، جموں و کشمیر میں 11.9، مہاراشٹر میں 9.4 فیصد آدیواسی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ مرکز کے زیرانتظام ان علاقوں اور ریاستوں کے آدیواسی سماج پر ہی نہیں،دیگر ریاستوں کے آدیواسی سماج پر بھی دروپدی مرمو کے صدر بننے کا مثبت اثر پڑے گا، کیونکہ آدیواسی سماج سے بننیس والی دروپدی مرمو بھارت کی پہلی خاتون صدر ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS