مولانا شہاب الدین رضوی
جب بھارت سے انگریز جا رہے تھے ،اسی وقت انگریزوں کے ہاتھوں فلسطین کا سودا کیا جا رہا تھا۔مسٹر گاندھی نے فلسطین کی آزادی کو آواز دی۔ اور بعد میں آزاد ہندوستان میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی نے آزاد فلسطین کی مانگ کو اپنی خارجہ پالیسی میں فوقیت دی۔ہندوستان 1988 میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔ . حال ہی میں، نریندر مودی حکومت اور سابقہ حکومتوں نے مسلسل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اصولوں کی بنیاد پر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے منصفانہ اور مستقل حل کا مطالبہ کیا ہے۔ساتھ ہی ہندوستان ایک خودمختار، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا بھی حامی رہا ہے۔
غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے اور اس میں معصوم جانوں کے ضیاع کے بعد فلسطین ایک بار پھر پوری دنیا کی خبروں میں ہے۔ غزہ پر حملے کے فوراً بعد ہندوستان نے نومبر کے مہینے میں ہی دو مرتبہ غزہ کے لیے امداد بھیجا۔ پھر دسمبر میں 70 ٹن امداد بھیجا گیا۔ نومبر 2023 میں، ہندوستان نے “مقبوضہ فلسطینی سرزمین” میں اسرائیل کے قبضے واالی سرگرمیوں کی مذمت کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ اس میں مشرقی یروشلم اور قبضہ کیا گیا شامی گولان بھی شامل ہیں۔ ایک طرح سے ہندوستان کا یہ ووٹ اسرائیل کے خلاف تھا۔
فلسطین کی حمایت امن پسند، سوشلسٹ، تکثیری، سیکولر، لیفٹ، اسلامی، انسانیت، ترقی پسند، روادار اور متوسط طبقوں، ممالک اور نظریات کی ضرورت بن چکی ہے۔ ہندوستان ہمیشہ دوررس خارجہ پالیسی کے ساتھ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ نئی دہلی جانتی ہے کہ فلسطین کی حمایت صرف کنان اور گولان کی پہاڑیوں کے درمیان گزرنے کی حمایت نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کا پوری دنیا کو پیغام ہے کہ وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے اور ایک انصاف پسند معاشرے کا مطالبہ کرتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 فروری 2018 کو اپنے دورہ فلسطین کے ساتھ تاریخ رقم کی،جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس سے قبل سابق صدر پرنب مکھرجی نے اکتوبر 2015 میں فلسطین کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ جنوری 2016 میں وزیر خارجہ سشما سوراج اور نومبر 2016 میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے۔ اکبر نے فلسطین کا بھی دورہ کیا تھا۔وزیر اعظم مودی نے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ کئی مواقع پر بات چیت کی، جن میں ستمبر 2015 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ملاقاتیں اور دسمبر 2015 میں پیرس میں موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقاتیں شامل تھیں۔ صدر محمود عباس نے 2005، 2008، 2010، 2012 اور حال ہی میں مئی 2017 میں اپنے تیسرے سرکاری دورے کے دوران ان سفارتی اشاروں کو دہرایا ہے۔ اپنے 2017 کے دورے کے دوران، صدر عباس نے ہندوستان کے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کی، جبکہ نائب صدر اور وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔ مزید برآں، اپریل 2015 میں، فلسطینی وزیر اعظم ڈاکٹر رامی حمداللہ اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ریاض مالکی نے Asia Africa Commemoration Conference کے موقع پر انڈونیشیا میں ہونے والی ملاقات کے دوران ہندوستانی وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت کی۔
اس کے علاوہ ہندوستان اور فلسطین کے درمیان پہلی مشترکہ کمیشن میٹنگ (جے سی ایم) نومبر 2016 میں رام اللہ میں ہوئی تھی۔ اس تاریخی میٹنگ کی صدارت ہندوستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ جناب ایم جے اکبر اینڈ ابروڈ ڈاکٹر ریاض مالکی نے کیا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلی مرتبہ فارن آفس کنسلٹیشنز (ایف او سی) مئی 2015 میں رام اللہ میں ہوئی، اس کے بعد اپریل 2017 میں نئی دہلی میں ہوا۔
ہندوستان فلسطین کے لیے کئی پروجیکٹ چلا رہا ہے۔ غزہ میں الازہر کے کیمپس میں جواہر لعل نہرو لائبریری کے اخراجات حکومت ہند برداشت کرتی ہے۔ غزہ کے دیر البالہ میں فلسطین ٹیکنیکل کالج میں مہاتما گاندھی لائبریری خود ہندوستان کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ ہندوستان نے لڑکوں کے لیے ابو دیس اور آشیرہ الشمالیہ میں جواہر لال نہرو سیکنڈری اسکول کے نام سے دو اسکول بھی بنائے ہیں۔ ہندوستان نے یاتا اور ہیبرون میں دو فلسطینی یونیورسٹیوں کو تکنیکی تعلیم میں بھی مدد کی ہے۔ بھارت نے رام اللہ میں انڈو-فلسطینی ٹیکنیکل پارک اور رام اللہ میں سفارتی عمارت بھی تعمیر کی ہے۔ یہ مدد تقریباً 30 ملین امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ ہندوستان نے فلسطین میں چھ نئے پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔ بیت لحم میں ہندوستان-فلسطین سپر اسپیشلٹی اسپتال، جینین گورنریٹ کے متلتھ الشہدا گاؤں میں ایک اسکول، توباس گورنریٹ کے تمون گاؤں میں ایک اسکول، ابو دیس میں جواہر لعل نہرو سیکنڈری اسکول برائے طلباء و طالبات میں ایک اضافی منزل اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ہندوستان نے ہندوستان-فلسطین سنٹر “توراتی” تعمیر کیا ہے۔ ہندوستان نے فلسطینی ثقافتی ورثے کے منصوبوں کی ترقی اور مارکیٹنگ کے قومی مرکز کی ترقی اور رام اللہ میں نئے نیشنل پرنٹنگ پریس کے لیے ساز و سامان اور لوازمات کی خریداری میں مدد کرکے بھی فلسطین کی مدد کی ہے۔
آئی بی ایس اے یعنی ہندوستان ،برازیل اور سائوتھ افریقہ کے مشترکہ فنڈ سے پانچ منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ کھیل اور صحت کے یہ مراکزآئی بی ایس اے کے فنڈ سے غزہ، نابلس اور رام اللہ میں بنائے جا رہے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے، ہندوستان پہلے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کو 12.50 لاکھ امریکی ڈالر فراہم کر رہا تھا، جسے نریندر مودی حکومت نے 2018 میں بڑھا کر 50 لاکھ امریکی ڈالر کر دیا تھا۔ انٹرنیشنل کلچرل کونسل آف انڈیا ہر سال 50 فلسطینی طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے 2018 میں فلسطین کے دورے کے بعد، اس اسکالرشپ کو بھی دوگنا کر دیا گیا تھا اور اب ہر سال 100 فلسطینی طلباء ہندوستانی حکومت کے خرچ پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈین ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن پروگرام (آئی ٹی ای سی) کے تحت ہر سال 150 فلسطینیوں کو تکنیکی تربیت دی جاتی ہے تاکہ ہندوستان صلاحیت سازی میں فلسطین کی مدد کر سکے۔ نریندر مودی کی حکومت نے سال 2014 سے فلسطینیوں کے لیے ‘ویزا آن ارائیول’ اور ‘ای ویزا’ کی سہولت شروع کی تھی۔
ہندوستان اور فلسطین کے درمیان سالانہ دو طرفہ تجارت تقریباً 40 ملین امریکی ڈالر کا ہے۔ ہندوستانی برآمدات میں ماربل، گرینائٹ اور دیگر پتھر، باسمتی چاول، ویکسین بنانے کا خام مال، کافی، کاجو، چینی، میٹھے بسکٹ اور پیکنگ کا سامان شامل ہے۔ جبکہ فلسطین سے زیتون کا تیل اور کھجوردرآمد کیے جاتے ہیں۔ فلسطین سے درآمدات ہندوستان کی برآمدات سے دگنی سے بھی زیادہ ہیں، جس سے عام فلسطینی کسانوں اور تاجروں کو ہندوستان سے غیر ملکی رقم سے مدد ملتی ہے۔
رام اللہ کے گارڈن میں گاندھی جی کا مجسمہ نصب ہے۔ ہندوستان فلسطین میں کئی کنسرٹ اور دستاویزی فلمیں بنا رہا ہے۔ 2015 سے 2018 تک چار سال فلسطین میں مختلف مقامات پر یوگا ڈے منایا گیاہے۔
تاریخ اور حال دونوں ہی بتاتے ہیں کہ ہندوستان فلسطین کے بھائی کے طور پر اپنا فرض پورا کر رہا ہے۔ یہ صرف دوستی نہیں ہے، رشتہ داری ہے۔
(مضمون نگار آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر ہیں)
فلسطین کیلئے بھائی کی طرح ہے ہندوستان: مولانا شہاب الدین رضوی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS