حکومت آسام کا قدم

0

ادھر کچھ عرصے سے عائلی مسائل میں قانون سازی کانیاسیاسی رجحان چل پڑا ہے ،اس میں حکومت آسام بھی شامل ہوگئی ہے ۔پہلے حکومت اتراکھنڈ نے ایک ایسا یونیفارم سول کوڈ بنایا ، جس سے قبائلیوں کو باہر رکھا گیا، اب یہ وہاں کی سرکار ہی بتاسکتی ہے کہ جس سول کوڈ سے ایک پوری کمیونٹی کو سے باہر رکھاگیا ، وہ یونیفارم کیسے ہوگیا ؟دوسری بات یہ ہے کہ اگر قبائلیوں کی مرضی کے خلاف قانون نہیں بنایا جاسکتا،تو دیگر کمیونٹیوں کی مرضی کے خلاف کیسے بنایاجاسکتاہے ؟قبائلی آبادی کے رسوم ورواج کا خیال رکھاجاسکتاہے تو دوسروں کا خیال کیوں نہیں رکھا جاسکتا؟بہرحال آسام کی بی جے پی حکومت نے ریاست میں آزادی سے پہلے 1935سے نافذ مسلم شادی وطلاق رجسٹریشن ایکٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے لئے 23فروری جمعہ کو اچانک دیر رات کابینہ کی میٹنگ منعقد کرکے تجویز ا س طرح منظور کی گئی کہ میڈیاکو بھی دوسرے دن صبح اس کی بھنک لگی ، جس کی وجہ سے اس کی خبر تیسرے دن اتوار کواخبارات میںشائع ہوسکی۔سرکار نے اس قانون کے 4مقاصد بتائے ہیں، ایک بچوں کی شادی روکنا، دوسرے یہ برطانوی دور حکومت کا قانون ہے، تیسرے مسلم شادی کارجسٹریشن ضلع کمشنر اورضلع رجسٹرار کے دفتر میں کرانا ہے ، اس کے لئے ریاست میں موجود مسلم شادی رجسٹرار کو ہٹایا جائے گا ، جن کی تعداد 94 بتائی جاتی ہے۔ ان کو سرکاری دفاتر میں ایڈجسٹ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یکمشت 2-2 لاکھ روپے معاوضہ دے دیا جائے گااورمذکورہ فیصلہ کا چوتھا سب سے اہم مقصد یہ بتایا گیا کہ یہ یونیفارم سول کوڈ کی سمت اہم قدم ہے۔ ویسے حکومت نے تعدد ازدواج پر روک لگانے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس سے پہلے مسلم شادی وطلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935کے خاتمہ کی سمت میںپہلا قدم بڑھایا ہے، جو کابینہ کی میٹنگ میں منظوری کی صورت میں ہے ۔ہوسکتاہے کہ اس کے بعد اگلے ضروری اقدامات بھی لوک سبھا انتخابات سے پہلے اٹھالئے جائیں۔
حکومت آسام نے مسلم شادی وطلاق رجسٹریشن ایکٹ کے خاتمہ کے جو 4 اسباب یا مقاصد بتائے ہیں، دیکھاجائے تو وہ ساری باتیں ہر مذہب کے پیروکاروں میں پائی جاتی ہیں ۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بچوں کی شادی صرف مسلمانوں میں ہوتی ہے، تعددازدواج بھی صرف مسلمانوں میں ہے، دیگرمذاہب میں بچوں کی شادی یا تعدد ازدواج کا رواج نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی شادی کارجسٹریشن ضلع کمشنر اورضلع رجسٹرار کے دفتر میںنہیں کراتے اور دیگر مذاہب کے تمام لوگ کراتے ہیں ۔یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ برطانوی دور حکومت کا صرف یہی ایک قانون ہے ، دیگر مذاہب کا کوئی قانون نہیں ہے ،پھر صرف مسلمانوں سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا قدم کیوںاٹھایا گیا ؟یہ دعوی بھی صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین ہی یونیفارم سول کوڈ میں رکاوٹ ہیں ،دیگر مذاہب کے عائلی قوانین اوررسوم ورواج نہیں ہیں ۔اگر ایسی بات ہوتی تو اتراکھنڈ کے یونیفارم سول کوڈ سے قبائلیوں کو باہر نہیںرکھا جاتا ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کیلئے قانو ن بنانے سے پہلے اسے اعتماد میں لیا جاتا ہے ،یہ کوئی جرائم سے متعلق قانون نہیں ہے ،عائلی قوانین میں سب کے اپنے اپنے رسوم ورواج اورعقائد ہوتے ہیں، جب ان سے متعلقہ کمیونٹی کے لوگوں کوعموما کوئی پریشانی نہیں ہے یا کوئی مسئلہ پیدانہیں ہورہاہے ، تو ان رسوم ورواج اورعقائدپر روک لگاتے ہوئے کوئی الگ قانون بناکر ان پر تھوپناکہاں تک صحیح ہے ؟بات گھوم پھیر کر وہیں پہنچتی ہے کہ جب یونیفارم سول کوڈ میں قبائلیوں کے جذبات ، رسوم ورواج اورآستھا کا خیال رکھاجاسکتاہے، تو دیگر کمیونٹیوں کا کیوں نہیں رکھا جاسکتا؟
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اورنہ ہی وہ کسی مذہب کا فریق بنتی ہے، بلکہ اس کا کام سبھی مذاہب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذہب کا معاملہ بہت ہی حساس ہوتاہے ، آپ یکطرفہ قانون بناکر کسی بھی کمیونٹی کومذہب سے دور نہیں کرسکتے ۔اس طرح کی قانون سازی کے پیچھے جو بھی اسباب اورمقاصد بتائے جاتے ہیں ، اس پر کبھی غور نہیں کیا جاتاکہ یہ خود کو تسلی دینے کیلئے ہیں یا مخاطب ان سے مطمئن ہے ؟ حقیقت میں اصل مقصد کچھ اورہوتاہے ، جو بتایا نہیں جاتا۔تنازعات کو حل کرنا چاہئے ، کھڑا نہیں کرناچاہئے، ورنہ دوسرے مسائل پیداہوتے ہیں اورعدالتوں پر مقدمات کا بوجھ مزید بڑھتاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS