ہندوستان، چین اور پڑوسی ممالک!

0

’جیو اور جینے دو‘،’آگے بڑھو اور بڑھاؤ‘، ’ترقی ساتھ مل کر کرو‘جیسی پالیسیوں پر عمل کرنے والے کسی بھی ملک کے لیے پڑوسی ملکوں کے اچھے حالات حوصلہ افزا اور برے حالات باعث تشویش ہوتے ہیں۔ سری لنکا کے حالات بھی ہندوستان کے لیے باعث تشویش ہیں۔ 31 مارچ کو وہاں ڈیزل نہیں تھا، ٹریفک کا سسٹم ٹھپ پڑ گیا تھا۔ ٹریفک کے نظام کو چلانے کے لیے ہندوستان نے 40,000 ٹن ڈیزل بھیجا۔ اس سے پہلے بھی وہ بار بار سری لنکا کی مدد کرتا رہا ہے مگر سری لنکا کے حالات کتنے خراب ہیں، اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہوتا کہ صدر گوتبیا راج پکشے کو ایمرجنسی کا اعلان کرنا پڑا ہے، کولمبو میں دکانیں کھلوانے کے لیے فوجیوں کو تعینات کرنا پڑا ہے، اس سے بھی ہوتا ہے کہ پکشے حکومت کی حمایت کرنے والی 11 پارٹیوں نے کابینہ تحلیل کرکے کارگزار حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ پکشے حکومت کیا کرتی ہے۔ بگڑتے حالات کو اگر پہلے ہی وہ بھانپ لیتی تو یہ دن اسے نہ دیکھنے پڑتے۔ مہندا راج پکشے اور ان کے بھائی گوتبیا راج پکشے بیرونی سطح پر چین کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے، ادھر سری لنکا کا قرض بڑھتا رہا۔ جو قرض 2019 میں جی ڈی پی کا 64.23 فیصد تھا، اس سال اس کے 97.8 فیصد اور 2025 میں 143 فیصد ہو جانے کا اندیشہ ہے،اس میں اور اضافہ ہو جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ پکشے بھائیوں کی حکومت داخلی سطح پر بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ عالمی برادری چیختی رہی مگر علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے بعد وہ تملوں کو انصاف نہیں دلا سکی۔ 21 اپریل، 2019 کو کولمبو کے 3 چرچوں میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد سری لنکن حکومت مسلمانوں سے اس طرح پیش آنے لگی جیسے وہ سبھی مشکوک ہوں۔اس وقت پکشے بھائیوں کو یہ لگتا تھا کہ وقت کی دھارا کو انہوں نے اپنے حق میں موڑ دیا ہے لیکن اب وقت تیور دکھا رہا ہے تو حالات ان سے سنبھالے نہیں سنبھل پا رہے ہیں۔ انہیں ہندوستان کی یاد آرہی ہے، ہندوستان اور چین کا فرق ان کی سمجھ میں آرہا ہے۔یہ وہ وقت ہے جب دیگر پڑوسیوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان کی باہمی مفاد کی پالیسی اس کی کمزوری نہیں، طاقت ہے۔ چین اور ہندوستان میں فرق یہ ہے کہ اقتصادی طور پر مستحکم سے مستحکم تر بننے کے لیے چین کا زور ایکسپورٹ پر رہتا ہے اور ہندوستان تجارت میں توازن برقرار رکھنے کے لیے امپورٹ پر بھی توجہ دیتا ہے ۔ مثلاً: سری لنکا جن 5ملکوں کو سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرتا ہے، ان میں چین کہیں نہیں مگر ہندوستان 6.09 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ وہ جن 5 ملکوں سے سب سے زیادہ امپورٹ کرتا ہے، ان میں 22.96 فیصد کے ساتھ چین پہلے اور پھر 19.30 کے ساتھ ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح نیپال جن 3 ملکوں کو سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرتا ہے، ان میں چین کہیں نہیں، ہندوستان 53.1 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ جن 3 ملکوں سے سب سے زیادہ امپورٹ کرتا ہے، ان میں ہندوستان 68.03 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر اور چین 31.97 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ چین کی ایسی ہی تجارت بنگلہ دیش کے ساتھ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پڑوسی ملکوں کو چین اور ہندوستان کا فرق سمجھ میں آنے لگا ہے۔ نیپالی وزیراعظم شیربہادر دیئوبا کے حالیہ سہ روزہ دورۂ ہند اور مثبت بیانات سے یہ امید بندھی ہے کہ ہندوستان اور نیپال کے مابین تلخی پیدا کرنے کی جو کوششکی جاتی رہی ہے، وہ قصۂ پارینہ بن جائے گی، نیپالی حکومت یہ سمجھے گی کہ ہندوستان اس خطے کا ایک بڑا ملک ہے، اس کا ساتھ اسے پاکستان نہیں بننے دے گا، اس کی خود مختاری اور آزادی محفوظ رہے گی، کیونکہ چین کی طرح ہندوستان ’توسیع پسند‘ نہیں۔
سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا، ’دوست بدلے جا سکتے ہیں،پڑوسی نہیں۔‘ اسی لیے ہندوستان نے پڑوسیوں کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ ہندوستان کے احسان سے شروع ہوتی ہے مگر اس نے وہاں فوجی اڈہ نہیں بنایا۔ ہندوستان نے سری لنکا میں اپنی فوج بھیجی مگر مستقل طور پر وہاں فوج رکھنے میں دلچسپی نہیں لی۔ نیپال سے ’روٹی اور بیٹی‘کے رشتے کا ناجائز فائدہ اس نے کبھی نہیں اٹھایا۔ بھوٹان 81.1 فیصد اشیا ہندوستان کو ایکسپورٹ کرتا ہے مگر ہند نے اسے اپنے دائرۂ اثر میں رکھنے کی کوشش کبھی نہیں کی، اس کی پالیسی بقائے باہم کی ہے، مل کر ساتھ آگے بڑھنے کی ہے، البتہ چین کی پالیسی نئے حالات پیدا کرنے اور اس کے سہارے اقتصادی مفاد کے حصول کی ہے، یہ پالیسی سری لنکا کے حالات سے بھی سمجھی جا سکتی ہے، نیپال کے حالات سے بھی۔ ہندوستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کھڑا ہے، ایک اچھے پڑوسی کا رول ادا کر رہا ہے۔ بس ان ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ چین کے ’قرض-جال‘ میں پھنس کر انہیں حالات سے نبردآزما ہوتے ہوئے آگے بڑھنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ ہر طرح کے جال سے آزاد رہ کر ترقی کرنا ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS