ترقی کے ذریعہ ملک کو بدلنے میں ناکام مرکز کی مودی حکومت اب شاید ملک کا ہی نام بدلنے والی ہے۔آئین کی دفعہ1میں واضح طور پر درج ہے کہ ’ انڈیا‘ جو کہ بھارت ہے ریاستوں کا ایک وفاق ہوگا۔مگر اب ملک کا صرف ایک نام ’بھارت ‘ ہونے والا ہے، اس کیلئے آئین میں بھی تبدیلی کیے جانے کی قیاس آرائی ہے۔غالباًاسی مقصد کے تحت پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بھی طلب کیاگیا ہے۔ 18 سے 22 ستمبر تک ہونے والے پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس کاکوئی ایجنڈا نہیں بتایاگیاہے جس کی وجہ سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگی ہیں۔ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ اس اجلاس میں چین اور منی پور کے معاملے پر بات ہوگی جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اس خصوصی اجلاس کے ذریعے وقف ایکٹ کو ختم کرنے جا رہی ہے۔ مگر اب یہ قیاس آرائی زور پکڑنے لگی ہے کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر مودی حکومت آئین میں ترمیم کرے گی اور ملک کا نام ’انڈیا‘سے بدل کر ’ بھارت‘ کر دیا جائے گا۔اس قیاس آرائی کو اس وقت تقویت ملی جب راشٹرپتی بھون سے جاری ایک دعوت نامہ میں ’ ریپبلک آف انڈیا‘ کی جگہ ’ ریپبلک آف بھارت‘ لکھا گیا۔یہ دعوت نامہ جی20کانفرنس میں شامل ہونے والے مہمانوں کے اعزاز میں راشٹرپتی بھون کی جانب سے 9ستمبرکو دیے جانے والے عشائیہ کا ہے۔ ہندوستان کے صدر کی جانب سے بھیجے گئے اس دعوت نامہ کے بعد سے ملک کی سیاست میں ابال آگیا ہے اور تمام بحث کا رخ ’ انڈیا‘ اور ’بھارت‘ کی جانب ہوگیا ہے۔کانگریس، عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس سبھی ایک زبان ہوکر مرکز کے اس اقدام کی مذمت کررہی ہیں۔
مودی حکومت کا ’انڈیا‘ سے اسی وقت ’ موہ بھنگ‘ ہوگیا تھا جب اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام ’ انڈیا‘ رکھ لیاتھا۔وزیراعظم نریندر مودی اور این ڈی اے خیمہ کے رہنما اپوزیشن کے اس اتحاد پراسی وقت سے حملہ آور ہیں اور ان کی یہ کوشش تھی کہ اپوزیشن اتحاد کسی طور پر بھی ’ انڈیا‘ سے وابستہ نہ ہو۔اس معاملہ میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں یہاں تک چلی گئیں کہ انہیں اپوزیشن اتحاد پرغیر ملکی سایہ بھی نظرآنے لگا،لیکن حکمراں جماعت کی یہ آرزو پوری نہیں ہوئی اور اپوزیشن اتحاد تمام تر نکتہ چینیوں سے بے پروا ہوکر اپنے ہدف کی جانب بڑھتا ہی گیا۔ ممبئی اجلاس کے بعد سے تو اس کے سیاسی اور انتخابی امکانات میں قابل ذکر اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔یہ وہ عوامل ہیں جو بی جے پی کو ’ انڈیا‘ سے برگشتہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔
اس برگشتگی کاہی ردعمل ہے کہ پہلے مرحلے میں دعوت نامہ پر بزن بولاگیاہے اورغالباً اگلا مرحلہ اسے حقیقی شکل دینے کیلئے آئین میں ترمیم کا ہے جس کیلئے خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ یہ خصوصی اجلاس بھی اپنے آپ میں ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا ایسا اجلاس ہوگا جس کا پہلے سے کوئی ایجنڈہ طے نہیں ہے۔طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ اس خصوصی اجلاس کی اطلاع بھی باقاعدہ علانیہ کے بجائے ٹوئٹر (موجودہ ایکس) پر وزیرپارلیمانی امور پرہلاد جوشی نے دی اور یہ ثابت کردیا کہ مودی حکومت نہ صرف غیر ذمہ دارہے بلکہ اس کا شفافیت سے بھی کوئی تعلق نہیںہے۔
ملک کی پارلیمانی روایت اور جمہوری طریق کار کے علی الرغم بغیر کسی ایجنڈے کے خصوصی اجلاس کا انعقاد ملک کو اندھیرے میں رکھنے کے مترادف ہے جس کی توقع کسی منتخب جمہوری حکومت سے نہیں کی جاسکتی ہے۔پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی واقعہ ہوتا ہے، یہ حکمراں جماعت کا استحقاق نہیں ہے بلکہ کسی ہنگامی مسئلہ پر ایوان سے گفت و شنید کیلئے کل جماعتی رائے کے بعد خصوصی اجلاس طلب کیاجاتا ہے۔ لیکن مودی حکومت نے اس پارلیمانی جمہوری روایت کابھی مذاق بنا ڈالا ہے۔
پارلیمنٹ پر پہلا حق ملک کے شہریوں کا ہوتاہے، بھلے ہی وہ خود اس کے براہ راست رکن نہ ہوں لیکن دونوں ایوانوں میں بیٹھنے والے ارکان ان کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ حکومت کو خصوصی اجلاس بلانے سے پہلے جمہوری طریق کار کے مطابق کل جماعتی اجلاس بلاکرمقصد واضح کرنا چاہیے تھا تاکہ بدگمانی اور قیاس آرائی سے بچاجاسکے اور پارلیمانی وقار بھی قائم رہے۔ اب جب کہ ملک کا نام ہی بدل ڈالنے کی قیاس آرائی زور پکڑنے لگی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس خصوصی اجلاس کا مقصد واضح کرے ورنہ طرح طرح کی قیاس آرائی اور بدگمانی ملک کی سالمیت و اتحاد کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
[email protected]
’انڈیا‘ اور ’بھارت‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS