’ایک ملک ایک الیکشن‘ کا نیا شگوفہ

0

عبدالعزیز

جو ریاست فلاحی ہوتی ہے عوام کی فلاح وبہبود کا خیال زیادہ سے زیادہ کرتی ہے۔ وہ عوامی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ زیادہ سے زیادہ دیتی ہے، لیکن جو حکومت یا ریاست عوامی یا فلاحی نہیں ہوتی وہ عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ موجودہ حکومت کو اگر دلچسپی ہے تو حکمرانی سے ہے، انتخاب میں کامیابی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لئے کوئی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جس سے اسے شکست سامنے نظر آتی ہے تو کوئی نہ کوئی شگوفہ چھوڑتی ہے یا کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرتی ہے۔ ملک کے پانچ ریاستوں میں انتخاب ہونے والا ہے۔ پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے ، 7-8 مہینے میں جنرل الیکشن بھی ہے اس میں بھی بی جے پی کے لئے مشکلات کا سامنا ہے۔ ریاستی اور لوک سبھا کا الیکشن دونوں بی جے پی کے لئے پریشان کن ہے۔ دوسری طرف ’انڈیا‘ اتحاد کے اندر مضبوطی اور استحکام پیدا ہورہا ہے جس کی امید بی جے پی یا نریندر مودی کو بہت کم تھی۔ انڈیا کا نعرہ ہے ’ جوڑے گا بھارت، جیتے گا انڈیا‘۔ یہ نعرہ بھی مقبول عام ہورہا ہے حالانکہ مودی جی اور ان کی پارٹی کے لیڈران نے لفظ ’انڈیا‘ کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھاہے۔
اپوزیشن پارٹیوں کی دو میٹنگ کے بعد رسوئی گیس کی قیمت میں 200 روپے کی کمی کی گئی۔ راجستھان میں رسوئی گیس کی قیمت 500 روپے کردی گئی ہے۔ کہاں پانچ چھ سو روپے کی کمی اور کہاں 200 روپے کی کمی۔ یہاں بھی بی جے پی مات کھاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن کی تیسری میٹنگ سے ایک دو روز پہلے ٹوئٹ کے ذریعے پارلیمنٹ کے پانچ روزہ خصوصی اجلاس کا 18ستمبر سے اعلان کیا گیا اور ممبئی اجلاس سے ایک دن پہلے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے لئے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ سب ’انڈیا‘ اتحاد کے جلوے اور مقبولیت کو کم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ 8 افراد پر مشتمل ’ایک دیش ایک چناؤ‘ پر غور و فکر کرنے کے لئے کمیٹی عالم وجود میں آئی اس میں لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر ادھیر رنجن چودھری کے علاوہ سب کے سب بی جے پی کے قریبی افراد ہیں۔ ادھیر رنجن چودھری نے کمیٹی سے اپنا نام واپس لے لیا۔ چودھری کا نام صرف دکھانے کے لئے لیا گیا تھا اب وہ بھی باقی نہیں رہے۔ ایک دیش ایک چناؤ کے حق میں جو دلیلیں دی جارہی ہیں وہ انتہائی کمزور اورگھٹیا قسم کی ہیں۔ ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس سے خرچ کم ہوجائے گا اور لوگوں کی الیکشن میں مصروفیات بھی کم سے کم ہوجائیں گی۔ مودی جی ہندستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو اپنے اصل کام سے دور اور انتخابات میں رات دن مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ریاست کے چناؤ میں وہ دہلی سے زیادہ ریاستوں میں رہتے ہیں۔ چناؤ ان کے لئے مصروفیت کا سامان ہوتا ہے۔ الیکشن انھیں مصروف نہیں رکھتا بلکہ الیکشن کو وہ خود اپنے لئے مصروف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو لوگ ’ایک دیش ایک الیکشن‘ کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ایک شگوفہ ہے، اسے اس لئے چھوڑا گیا ہے کہ لوگ اس میں الجھ جائیں اور یہ بحث و مباحثہ کا موضوع بن جائے۔ 2018 میں جسٹس چوہان کی سربراہی میں ’ایک دیش ایک چناؤ‘ کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا سجھاؤ جب نریندر مودی کے پاس آیا تھا توانہوںنے خود اسے سرد خانے میں رکھ دیا تھا۔ اب اسی فائل کو دوبارہ نکالا گیا ہے اور عوام کو الجھانے کے لئے نئی کمیٹی تشکیل کر دی گئی ہے۔ نئی کمیٹی میں اس شخص کو چیئرمین بنایا گیا ہے جو ملک کا صدر رہ چکا ہے۔ بی جے پی نے یہ نہیں سوچا کہ جو کل صدر کی کرسی پر تھا اس کو ایک کمیٹی کا صدر بناکر اس کی شان بڑھائی جارہی ہے یا گھٹائی جارہی ہے۔ اس سے کمیٹی کے وقار و معیار میں بھی اضافہ ہوتا ہے یا ہنسی مذاق کا ذریعہ بنتا ہے۔
حوالہ کے شرائط (Terms of Reference) جو کمیٹی کو دیئے گئے ہیں وہ بھی عجیب و غریب ہیں۔ مثلاً یہ کمیٹی اس بات پر بھی غور کرے گی کہ ریاستی اسمبلیوں کی رائے لینی ضروری ہے یا نہیں، حالانکہ دستور ہند میں واضح ہے کہ جب بھی ترمیمات دستور میں ہوں گی تو ریاستی اسمبلیوں کی اکثریت کی رائے لینی ضروری ہوگی۔ دستور میں اتنے واضح شق کو نظر انداز کرکے اس طرح کی چیز حوالے کے شرائط میں داخل کرنا سراسر حماقت اور جہالت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے پاس کرانے کے لئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے دو تہائی ممبران کی رائے حق میں ہونی چاہئے۔ ان تمام پیچیدگیوں کو جانتے ہوئے اس طرح کا شگوفہ چھوڑا گیا ہے۔ یہ شگوفہ بھی یونیفارم سول کوڈ ہی کی طرح ہے جس کا بہت چرچا ہوااور بحث و مباحثہ ہوا۔ عوام اور خواص سے رائیں لی گئیں ۔اس شگوفہ کا نتیجہ کیا نکلا؟ بالآخر اسے بھی سرد خانے میں یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ 2024 کے الیکشن کے بعد اس پر غور و خوض کیا جائے گا۔ غالباً اس نئے شگوفے کا بھی رزلٹ دیر یا سویر یہی ہو گا۔
اگر حکومت قانون سے بالاتر ہوکر آرٹیکل 370 کو جس طرح ہٹایا تھا اسی طرح ’ایک دیش ایک الیکشن ‘کے لئے بھی قانون سازی کرے گی تو آگے چل کر غیر معمولی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے ریاستوں میں کوئی حکومت معینہ مدت سے پہلے ختم کردی جاتی ہے تو پھر کیسے وہ ’ایک دیش ایک الیکشن‘ میں شامل ہوسکے گی۔ اس کے لئے تو تمام ریاستوں کی حکومتوں کو ختم کرنا ہوگا، لوک سبھا کو تحلیل کرنا ہوگا۔ کیا ایک ریاست کے الیکشن کے لئے یہ سب کرنا آسان ہوگا؟ مثلاً اگر قانون بن گیا اور ایک الیکشن کا اعلان ہوگیا تو یوپی سمیت جہاں جہاں بی جے پی یا غیر بی جے پی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ہوگا اور حکومتوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کیا یہ سب ممکن ہے؟ ٹھیک سے جائزہ لیا جائے تو یہ عمل ممکنات میں سے نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد آج اس موضوع پر غور و خوض کرے گا اور اس کا فیصلہ آئے گا۔ اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کریں گی یا نہیں فیصلہ آنا باقی ہے۔ چند پارٹیوں نے شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک دیش ایک الیکشن‘ پر بھی اپوزیشن کی بیشتر پارٹیوں نے اپنا نقطہ نظر ظاہر کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ملک کے وفاقی کے ڈھانچے پر زبردست حملہ ہے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے اس سلسلے میں بہت ہی اچھی اور سلجھی بات کہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’ایک دیش ایک الیکشن‘ سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ اگر ’ایک نیشن اور ایک ایجوکیشن‘ (ایک دیش اور ایک تعلیم) ’ایک دیش ایک علاج‘ کی بات کی جائے تو سب کو فائدہ ہوگا۔سب کو یکساں تعلیم دی جائے۔ سب کا یکساں علاج ہو خواہ امیر ہو یا غریب۔ جس درس گاہ میں امیر کے بچے پڑھتے ہوں اسی درس گاہ میں غریب کے بچے بھی پڑھیں۔ جس اسپتال یا نرسنگ ہوم میں امیروں کا علاج ہوتا ہے اسی اسپتال میں غریبوں کا بھی علاج ہو تو عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب بات نہ کرکے عوام کے بے تعلق مسئلے کو ابھارنا عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ تمل ناڈو ایم کے اسٹالن کے بیٹے ادے ندھی اسٹالن نے بھی بے موقع ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ سناتن دھرم کو ڈینگو اور ملیریا سے تشبیہ دی ہے۔ الیکشن کے اس موسم میں اس طرح کی بات کرکے حقیقت میں بی جے پی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے جو دینا نہیں چاہئے تھا۔ گجرات اسمبلی کے گزشتہ الیکشن سے پہلے کانگریس اور بی جے پی میں ٹکر کا مقابلہ تھا۔ کانگریس الیکشن جیت بھی سکتی تھی لیکن اسی دوران منی شنکر ایئر نے مودی کے بارے میں کچھ قابل اعتراض بیان دے دیا تھا۔ بی جے پی نے اس کا ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ کانگریس جیتی ہوئی بازی ہار گئی۔ ایم اسٹالن کے بیٹے کے بیان کو بھی اس انداز سے بی جے پی والے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور میڈیا والے بھی زور و شور سے اس پروپیگنڈے میں شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ’انڈیا‘ اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کانگریس کا ایک نہیں کئی بیان آیا ہے۔ کئی لیڈروں نے تو اسٹالن کے بیان کو ناپسند کیا ہے اور اس سے برأت کا اظہار کیا ہے ۔ کانگریس کے صدر ملکا رجن کھرگے کے بیٹے پریانک کھرگے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’وہ مذہب نہیں ہوسکتا ہے جو مساوات کو فروغ نہ دے۔ اسے بھی مذہب نہیں کہا جاسکتا ہے جو انسانوں کے وقار کو مجروح کرے۔ ایسا مذہب جو انسانوں میں نابرابری پیدا کرتا ہو وہ اتنا ہی اچھا ہے جتنا کہ کوئی بیماری‘‘۔ پریانک کھرگے کا بیان حق و انصاف پر مبنی ہے لیکن اسے بھی کھینچ تان کر بی جے پی والوں نے اور گودی میڈیا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ادے ندھی اسٹالن کی حمایت کی ہے جو سراسر غلط ہے بلکہ انھوں نے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ ’انڈیا‘ اتحاد والوں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ بی جے پی کو پروپیگنڈے کا موقع قطعی نہیں دینا چاہئے۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS