آدتیہ- ایل1کا سفر ہندوستان کی اہمیت کا آئینہ دار

0
آدتیہ- ایل1کا سفر ہندوستان کی اہمیت کا آئینہ دار

ایم اے کنول جعفری

چاند کے جنوبی قطب پر چندریان3-کی کامیاب تاریخی سافٹ لینڈنگ کے بعد ہندوستان کی خلائی تحقیقی تنظیم(اسرو) کے سائنسدانوں نے ایک مرتبہ پھر تاریخ رقم کرنے کے لیے خلا میں اپنے قدم بڑھا دیے ہیں۔ عوام کی بھی اُن سے خلائی تکنیک میں ایسے کارنامے انجام دینے کی توقعات بڑھ گئی ہیں،جہاں ابھی تک دوسرے ممالک کے خلائی اداروں کی توجہ مبذول نہیں ہوئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 23اگست 2023 کو چندریان3-کی کامیاب لینڈنگ کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہت جلد آدتیہ-ایل1سورج کے مطالعہ کے لیے خلا میں بھیجا جائے گا۔اسرو کے خلائی سائنسدانوں کی ہمت، جوش،استقلال اور عزم محکم کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ چندریان3-کی کامیابی کو ابھی10روز ہی گزرے تھے کہ انہوں نے ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے آندھراپردیش کے شری ہری کوٹا کے ستیش دھون خلائی مرکز سےPSLV-C57کے L Xورژن کے 4اسٹیج والے راکٹ کے ذریعہ ’ آدتیہ – ایل 1‘کو خلا میں بھیجنے کی تاریخ 2ستمبر2023 اور وقت 11:50بجے قبل از دوپہر مقرر کر دیا۔ طے شدہ منصوبے کے تحت23 گھنٹے40 منٹ کی اُلٹی گنتی کے اختتام پر زیرو آتے ہی آدتیہ – ایل1نے اُڑان بھرتے ہوئے اپنا خلائی سفر شروع کردیا۔اسرو کے سربراہ ڈاکٹر ایس سومناتھ نے کہا کہ آدتیہ-ایل1 سورج کا مطالعہ کرنے والا پہلا خلا پر مبنی ہندوستانی مشن ہے۔ خلائی نظام اور ملک کے پہلے شمسی مشن کے تحت آدتیہ-ایل1 کی کامیاب لانچنگ کے ساتھ تمام چاروں مراحل کے اگنیشن اور علیحدگی کے بعد خلائی جہاز کو تقریباً600کلومیٹر کی بلندی پر زمین کے نچلے مدار میں کامیابی کے ساتھ قائم کیا جا چکا ہے۔ یہ ایک بیضوی مدار ہے۔آدتیہ -ایل1کے ذریعہ زمین کے پہلے مدار کا طواف 235×19,500 کلومیٹر ہے، جو اگلے روز بڑھ کر245×22,459کلومیٹر ہوگیا۔ آدتیہ-ایل1 کے مدار میں داخل ہونے کے ساتھ 125 دنوں کے لمبے سفر کے دوران سورج کی بیرونی فضا کا مطالعہ کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ یہ16دن بعد سورج کی جانب قدم بڑھائے گا۔ دوران سفر یہ ضروری رفتار حاصل کرنے کے لیے5مرتبہ اپنے مدار تبدیل کرے گا۔آدتیہ-ایل1 سورج کا مطالعہ کرنے والا اپنی طرح کا پہلا مشن ہے۔ اس سے قبل امریکہ،جاپان، یوروپ ممالک اور چین بھی سورج کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے سولر مشن روانہ کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر ایس سومناتھ کے مطابق آدتیہ-ایل1، 15لاکھ کلومیٹر کا طویل سفر مکمل کرنے کے بعد یکم جنوری 2024 کے پہلے ہفتے میں سورج کے علاقے میں داخل ہوجائے گا۔ تقریباً 1480.7کلوگرام وزن کے خلائی جہازکو زمین اور سورج کے درمیان لنگر ینج پوائنٹ 1- (ایل1) کے گرد ایک ہالو آربٹ میں نصب کیا جائے گا۔ایل1لگرینج پوائنٹ کی زمین سے دوری چاند کی زمین سے دوری سے چارگنا زیادہ ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد آدتیہ-ایل1 اہم ڈاٹا مہیا کرکے انہیں بھیجنا شروع کرے گا۔ خلائی جہاز کو زمین کے نچلے مدار میں رکھے جانے کے بعد مدار کو مزید بیضوی شکل دی جائے گی۔بعد میں خلائی جہاز کو آن بورڈ پروپلشن تھرسٹرس کا استعمال کرتے ہوئے لگرینج پوائنٹ ایل1 کی جانب روانہ کیا جائے گا۔لگرینج پوائنٹ خلا میں سورج اور زمین کی مشترکہ کشش ثقل کے متوازن ہونے کا ایک اہم مقام اور سورج پر تحقیق کرنے کی خاص جگہ ہے۔ جیسے ہی خلائی جہاز ایل1کی طرف بڑھے گا،یہ زمین کے کشش ثقل کے میدان(ایس او آئی) سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد کروز مرحلہ شروع ہو جائے گا۔اسرو کے سربراہ کے مطابق آدتیہ-ایل1 کو یو آر راؤ سیٹلائٹ سینٹر بنگلور میں تیار کیا گیا ہے۔
خلائی سائنسدانوں اور محققین کو جتنی معلومات چاند کے بارے میں ہے،اُتنی جانکاری سورج کے بارے میں نہیں ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ چاند کا زمین سے قریب ہونا اور اس کی سطح تک پہنچنا کسی حد تک ممکن ہے،جبکہ زمین سے15.95کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود آگ برساتے سورج کی سطح پر پہنچنا تو بہت دُور،اس کے قریب جانا بھی ناممکن ہے۔ روشنی کی رفتار تقریباً 3لاکھ کلومیٹر (2,99,792.458) فی سیکنڈ ہے۔ سورج کی شعاع کو زمین پر آنے کے لیے8منٹ اور20سیکنڈ کا وقت لگتا ہے۔ مطلب یہ کہ آدتیہ- ایل 1جس لگرینج پوائنٹ پر پہنچے گا،وہ زمین سے سورج کے فاصلے کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ آدتیہ-ایل1کاوہاں پہنچنا بھی اسرو کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مانا جا رہا ہے کہ اگر آدتیہ-ایل1اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ کامیابی ہندوستان کے وقار میں تو چارچاند لگائے گی ہی، عالمی برادری کے لیے بھی کافی اہم ہوگی۔ہندوستانی شمسی مشن کی شروعات 2006میں اس وقت ہوئی تھی،جب ایروناٹیکل سوسائٹی آف انڈیا اور انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں نے ایک آلے کے ساتھ ’ سولر لیب‘کے تصور اور سورج کے لیے ایک ہی خلائی گاڑی میں شمسی آبزرویٹری کی تجویز پیش کی تھی۔ دسمبر2009 میں اسرو نے ایک آلے کے ساتھ آدتیہ1- منصوبے کو منظوری دی ۔ اپریل 2013 میں سابق سربراہ یو آر راؤ کی مداخلت کے بعد سائنسی طبقے سے زیادہ سائنسی آلوں(پے لوڈ) کا مطالبہ کیا گیا۔جون 2013میں اسرو نے حاصل شدہ سائنسی تجویزات کاجائزہ لیا۔ جولائی 2013میں اسرو نے آدتیہ- 1 مشن کے لیے 7پے لوڈ(آلات) کا انتخاب کیا اور اس کا نام تبدیل کر آدتیہ-ایل1کردیا ۔نومبر2015میں اسرو نے اسے باضابطہ طور پر منظوری دی۔ اس کے 4پے لوڈ سورج کے اُجالے کا مطالعہ کریں گے،جبکہ3آلات ایل1پوائنٹ پر رہتے ہوئے پلازمہ اور مقناطیسی علاقے کے مختلف معیاروں پر ڈاٹا حاصل کریں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے خلائی تحقیق تنظیم کے سائنسدانوں اور انجینئروں کو ملک کے پہلے شمسی مشن آدتیہ-ایل1کی کامیاب لانچنگ پر مبارک باد دیتے ہوئے نیک خواہشات پیش کیں۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اسرو کے سائنسدانوں، خلائی انجینئروں،محققین اوردیگر محنتی اہلکاروں کو آدتیہ-ایل1کو کامیابی کے ساتھ لانچ کرنے پر مبارک باددیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اسرو اسی طرح کامیاب حصولیابیوں سے ملک کو خوشیوں سے ہمکنار کرتا رہے گا۔کھرگے نے کہا کہ ہندوستان کا شمسی مشن2006میں شروع ہوا تھا۔جب سائنسدانوں نے سورج کے لیے ایک ہی خلائی گاڑی میں شمسی آبزرویٹری کی تجویز پیش کی تھی۔جولائی 2013میں اسرو نے آدتیہ1-مشن کے لیے 7آلات کا انتخاب کیا، جسے اَ ب آدتیہ-ایل1مشن کانام دیا گیاہے۔ کانگریس کی جانب سے آدتیہ-ایل1کی کامیاب لانچنگ کے لیے اسرو اور ملک کے سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی اِس کامیابی پر کانگریس کنبے کو فخر ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ اسرو نے چندریان3-کے بعد آدتیہ-ایل1کو کامیابی کے ساتھ لانچ کرکے ملک کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ مشن کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اسرو کے شمسی مشن کی کمان ایک مسلم خاتون نگار شاذی کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ مشن کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں،جو گزشتہ35برسوں سے اسرو میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ نگار کا کہنا ہے کہ یہ ایک خواب کے سچ ہونے جیسا ہے۔وہ آدتیہ-ایل1کو طے شدہ مدار میں پہنچا نے کے لیے بہت خوش ہیں۔اُمید کی جانی چاہیے کہ ہمارا سولر مشن اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS