یوں تو یوم آزادی کا جشن پورے ملک میںنہایت ہی جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا، تاریخی لال قلعہ پر اس کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوئی،جس کی خبر ہر سال اخبارات میں بڑے اہتمام سے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی جاتی ہے اورٹیلی ویژن پر لائیوٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر ریاستی حکومت نے اپنے طور پر تقریبات کا انعقاد کیا، ہر جگہ پرچم کشائی کی گئی، سلامی لی گئی اور تقریریں کی گئیں، لیکن اس بار جموں وکشمیر میں یوم آزادی کی تقریبات کچھ ایسی تھیں کہ پورے ملک کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگئی، وہاں کچھ الگ ہی رنگ، انداز اور جوش و خروش نظر آیا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی کشمیر ہے، جس کا عام تصور ملک کے لوگوں کے ذہنوںمیں ہے۔کشمیریوں نے اپنے جذبہ کا اظہاریوم آزادی سے 2دن قبل 13 اگست کو کردیاتھا، جب لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ترنگایاترا نکالی گئی تھی اورملک کووہ پیغام دیا گیا،جس کا انتظار سبھی کو بے صبری سے تھا۔یوم آزادی کے جشن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ترنگایاترا محض ایک جھانکی تھی۔ دیش بھکتی کامظاہرہ اوربڑے پیمانے پر جشن آزادی 15اگست کو نظر آیا۔ 77ویں یوم آزادی پر سری نگر اوروادیٔ کشمیر کے دیگر علاقے جس طرح ترنگے میں لپٹے ہوئے نظر آئے، ویسامنظر ماضی میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔سری نگر کے لال چوک، گھنٹہ گھر اوربخشی اسٹیڈیم میں پرچم کشائی کی تقریبات اور مختلف علاقوں میں ترنگا یاترا قابل دید تھیں۔ سرکاری طور پر سب سے بڑی تقریب بخشی اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی، جہاں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ترنگا لہرایا۔ اس تقریب میں کشمیریوں کا جوش اورجذبہ دیکھ کر ہر کوئی حیرت زدہ تھا۔ پہلی بار لوگ لائن لگا کر سکون کے ساتھ اسٹیڈیم میں داخل ہوئے اور اسٹیڈیم میں لوگوں کی شرکت دیکھ کر عید جیسا منظر نظر آرہا تھا۔اس تقریب میں مرد، عورت، نوجوان اورضعیف سبھی بلاخوف وخطر نظر آئے۔ نوجوان ہاتھوں میں ترنگا لہرارہے تھے۔ اس بڑی تبدیلی پر تبصرہ کرتے ہوئے آئی اے ایس افسرشاہ فیصل نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کشمیری 15 اگست کو عید کی طرح منا رہے ہیں۔ کشمیر آج فخر کا تجربہ کر رہا ہے۔ اس بار کشمیر میں ایک اور تبدیلی نظر آئی۔
سری نگر کے جس لال چوک پرآج جتنی آسانی سے نہ صرف ترنگا لہرایاگیا، بلکہ ہر طرف ترنگا ہی ترنگا تھا، وہاں 32سال قبل1990کی دہائی میں ترنگا لہرانا اتنا ہی مشکل تھا۔اس وقت وزیراعظم نریندرمودی نے بی جے پی کے سینئر لیڈرمرلی منوہر جوشی کی قیادت میں کنیاکماری سے ترنگاایکتایاترانکالی تھی تو 26جنوری 1992کوسری نگرکے لال چوک پر ترنگا لہرانے کا پروگروم تھا، حالات بہت خراب تھے،حملے کی دھمکیاں مل رہی تھیں، بڑی مشکل سے انتظامیہ نے ترنگالہرانے کیلئے 15منٹ کا وقت دیا۔ آج کوئی دھمکی نہیں، کوئی ہنگامہ نہیں، کشمیری خود ترنگالہرانے کے لیے آگے آئے اورپرچم کشائی ویوم آزادی کے جشن کے تئیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح جذبہ کامظاہرہ کیا۔ وہاں باہر سے آکرکسی کو ترنگالہرانے کی ضرورت نہیںرہی، کیونکہ ترنگا خود کشمیری لہرا رہے ہیں۔جب جذبہ اندر سے پیداہوتا یاامڈتا ہے تو باہری کو کچھ کرنا تودور بولنے تک کا موقع نہیں ملتا۔اسی لیے کشمیر میں دہلی سے کسی کو جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کشمیریوں نے لیفٹیننٹ گورنر اورمقامی انتظامیہ کے ساتھ یوم آزادی کا جشن بھی منایا اور اپنے جذبہ کا اظہاربھی کیا۔جس کی وجہ سے آج پوراملک کشمیریوں کو دیکھ رہا ہے اورکشمیری پورے ملک سے یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ ان کے تئیں اپنی سوچ کو بدلیں۔ظاہر سی بات ہے کہ جب تبدیلی دونوں طرف سے ہوگی تو ایک الگ ہی منظرسامنے آئے گا،جس کی ضرورت ہے۔جب کوئی کام نیک نیتی سے کیا جائے اورمثبت سوچ اورجذبہ ہو تو اس کے نتائج بھی مثبت سامنے آتے ہیں۔
کشمیر اورکشمیریوں میں یہ تبدیلی چند دنوں یا کچھ اقدامات کی وجہ سے نہیں آئی، بلکہ طویل محنت اورکوششوں کے بعد آئی ہے۔جب انتظامیہ اور عوام میں اعتماد کی فضا بحال ہوتی ہے تو یوم آزادی جیسے ہی مناظردکھائی دیتے ہیں۔کشمیر اور کشمیریوں میں جو تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے، اس کو برقراررکھنے کے لیے مزید اقدامات اورعام کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی، ان کے مسائل کو حل کرنے اوران کی ترقی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔بہرحال آج کشمیرمیں جس طرح کی تبدیلی اورفضاپورے ملک کو دیکھنے کو ملی، وہ خوش آئند ہے اورآئندہ مزید بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
[email protected]
کشمیر میں یوم آزادی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS