مسئلہ فلسطین: کیا کسی بڑے لمحے کا انتظار ہے

0

مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے اوسلو سمجھوتہ کے 30سال بعد سعودی عرب نے رملہ میں اپنا سفیر تعینات کیا ہے۔ سفارتی حلقوں میں اس تقرری پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ کئی حلقوںمیں یہ کہا جارہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور سعودی حکومت کے درمیان بظاہر خوشگوار تعلقات کے باوجود کافی حد تک اختلافات ہیں اور اب جاکر رملہ میں سعودی سفیر کی تعیناتی اس بات کی طرف اشارہ دیتی ہے کہ سعودی عرب حالات کو نیا رخ دینا چاہتا ہے۔ کئی حلقوںکا کہنا ہے کہ یہ تعیناتی سعودی عرب اوراسرائیل کے درمیان تعلقات میں استواری کی طرف پہلا قدم ہوسکتی ہے۔ خیال رہے کہ رملہ میں اگرچہ آزاد فلسطین انتظامیہ یا فلسطینی اتھارٹی مکمل ریاست کی تعمیر کی طرف ایک مثبت قدم ہے، مگر مغربی کنارے میں واقع یہ ہیڈکوارٹر اسرائیل کے اقتدار اعلیٰ کے تحت ہی آتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس اقتدار اعلیٰ نہیں ہے، اقتداراعلیٰ اسرائیل کے پاس ہی ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی میں سعودی سفارت خانے کا قیام کسی حد تک یہودی ریاست کے قیام کی طرف اٹھنے والا قدم قراردیا جاسکتا ہے، مگر یہ قدم اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ قدم عرب اور مسلم دنیا کے سب سے اہم ملک سعودی عرب کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور سعودی عرب جوکہ سرزمین فلسطین اور مغربی ایشیا کے عرب ملکوں میں انتہائی بلند مقام رکھتا ہے اور اس ملک کو پوری مسلم دنیا میں قائدانہ مقام حاصل ہے۔ بہرکیف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس نے سعودی سفیر کا پرتپاک خیرمقدم کیا ہے۔ یہ واقعہ پچھلے دنوں مصر میں فلسطینیوں کے مختلف گروپوں اور جنگی تنظیموں کے درمیان ایک صلح صفائی کی کوشش کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ اس کاوش میں مصر کے صدر الفتح السیسی نے ازخود قیادت کی تھی اور اس مصالحتی میٹنگ میں فلسطینی کے تقریباً 11 گروپ شامل ہوئے تھے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس کو مصر نے سب سے زیادہ اہمیت دی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ تمام تر اختلافات اور تنازعات کے باوجود یاسر عرفات کی تنظیم پی ایل او کے سیاسی بازو الفتح جوکہ فلسطینی اتھارٹی کے مغربی کنارے پر مقتدر ہے، وہی موجودہ تمام گروہوں اور تنظیموں کا قائد اورسربراہ ہے اور محمود العباس تمام تر مجبوریوں، معذوریوں کے باوجود فلسطینیوں کے قائد ہیں۔ خیال رہے کہ 2006کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا انتخاب نہیں ہوپایا ہے اور اس وقت جو الیکشن ہوا تھا، اس میں حماس کے ساتھ پی ایل او یا الفتح کے شدید اختلافات سامنے آئے تھے اور دونوں تنظیمیں الگ الگ خطوں میں اپنا اقتدار جمائے بیٹھی ہیں۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی پر الفتح کا قبضہ ہے، جبکہ غزہ کی پٹی میں حماس کا اقتدار قائم ہے مگر ان دونوںجگہوں پر کچھ ایسے گروپ معرض وجود میں آچکے ہیں جو ان دونوں تنظیموں سے الگ منفردانداز سے فلسطینی کاز کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان دونوںمقامات کے علاوہ مشرقی یروشلم میں بھی اسرائیل کی استبدادی ہتھکنڈوںکا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ مذکورہ بالا دونوں تنظیمیں اپنے اپنے طورپر کام کر رہی ہیں، مگر پی ایل او کے سیاسی بازو الفتح کا بین الاقوامی سطح پر اور عرب واسلامی ملکوں میں عمل دخل ہے۔ بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ اور تمام ممالک پی ایل او کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ یہ سب کچھ رتبہ جو پی ایل اوکوملا ہے وہ مرحوم و مغفور یاسرعرفات کی کاوشوںاوران کی سرگرمی کا نتیجہ رہا ہے، مگر آج 30سال کے بعد پی ایل او یا الفتح کی پوزیشن میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ خانگی سطح پر پی ایل او یا الفتح زیادہ موثر ثابت نہیں ہورہی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پی ایل او اسرائیل کے ساتھ ایک سمجھوتہ کے تحت بندھی ہوئی ہے اوراس کو کہیں نہ کہیں اورکافی حدتک اسرائیلی حکام، افواج اور قانون ساز اداروں و خفیہ ایجنسیوںکے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعاون اکثر اوقات فلسطینیوں اور ان کی تنظیموں کے مفادات کے خلاف کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اورخفیہ نظام اس مجموعی صورت حال میں اسرائیل کے معاون بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال الفتح کی فلسطینیوںمیں مقبولیت کم کرنے والی ہے۔ گزشتہ 3دہائیوںمیں ان ہی پیچیدگیوں کی وجہ سے کئی اور تنظیمیں منظرعام پر آئی ہیں جوکہ فلسطینی اتھارٹی الفتح یا پی ایل او کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی افواج،دستوں یا پولیس اہلکاروں سے متصادم ہیں۔ یہ تصادم جانی مالی نقصان کے طورپر سامنے آتا ہے اورلگاتار یہ دیکھا گیا ہے کہ فلسطین کے مختلف گروپ غاصب فوج کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔جبکہ غزہ کی پٹی میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں پر حماس جوکہ ایک مسلح تنظیم ہے، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی ہے اور اس نے اسرائیل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔ مغربی کنارے پر قابض ہے۔ گزشتہ تین دہائیوںمیں کئی مرتبہ فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں اورحماس کے جنگجوئوں میں زبردست گولہ باری کے افسوسناک مناظردیکھنے کو ملے ہیں۔ ان تصادموںمیں بڑے نقصا نات بھی ہوئے ہیں۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ خطے میں امن و امان قائم ہو، مگراس سے پہلے فلسطینیوںکے بنیادی مسائل یعنی ایک علیحدہ اورخودمختار ریاست کا قیام عمل میں آجائے۔
فلسطین کی تاریخ اور موجودہ حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کو سعودی عرب کے اس قدم پر کافی حیرانی ہوئی ہے اوراس کو ایک غیرمعمولی واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس دوران اسرائیل جوکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا خواہشمند ہے، ان قیاس آرائیوںکو خارج کردیا ہے کہ وہ یعنی اسرائیل سعودی عرب کے کسی بھی سفارت خانے کو مشرقی یروشلم میں قائم کرنے کی اجازت دے گا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کے سفیر برائے فلسطین کی تقرری کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات اور سفارتی عملہ کام کرنا شروع کردے گا اور اس کی ایک شاخ یعنی سفارتی دفتر (قونصل خانہ) یروشلم میں بھی قائم کرنے پر کئی حلقوںمیں گفتگو ہورہی ہے، مگر اسرائیل تمام تر قیاس آرائیوںکے درمیان یروشلم میں سعودی عرب کے قونصل خانے کی تعمیر یا اس کو جگہ فراہم کرنے کو خارج از امکان قرار دے چکا ہے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب نے فلسطین میں اپنا سفیر تعینات کیا ہے نہ کہ اسرائیل میں۔یروشلم کا تنازع، مسئلۂ فلسطین حساس ترین ایشو ہے۔ فلسطینی یروشلم میں اپنے مستقبل کی ریاست کی راجدھانی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں، لہٰذا وہ سعودی عرب کو فلسطینی سفارت خانے یا قونصل خانے کے لئے جگہ فراہم کرے یہ ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین اس قدر الجھا ہوا اورپیچیدہ ہے کہ اس کو سلجھانے کی کوشش میںبھی ہزاروں الجھنیں اور ہزار دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔ سعودی سفارت خانہ کے قیام کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کوایک آزاداورخودمختار ریاست تسلیم کرتا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب دونوں کئی ہفتوںسے مذاکرات کر رہے ہیں۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین افسران کئی مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں یہ کہانیاں گشت کر رہی ہیں کہ دونوںملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں۔ مگر سعودی عرب مسلسل اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ پہلے فلسطین کے مسئلہ کوحل کیا جائے باقی دونوں ملکوں یعنی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ہیں اس کا فیصلہ بعدمیں کیا جائے گا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سعودی عرب کا اصرار ہے کہ سب سے پہلے فلسطینی ریاست قائم ہو ، اس کے بعد جوہوگا وہ ہوگا، مگر اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کا اڑیل رویہ اپنی جگہ قائم ہے۔ انہوں نے پچھلے دنوں ایک ٹیلی ویژن چینل میںاپنا موقف واضح کردیا ہے کہ فلسطینیوںکو تمام تر اختیارات دیئے جائیںگے، مگر کوئی ان کو ایسی طاقت یا اختیار نہیں دیا جائے گا جو ان کے یعنی اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والا ہو۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS