ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
عالمی برادری نے جب بھی اس بات کی کوشش کی ہے کہ فلسطینی عوام کو اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے بچایا جائے اور ان کے لئے راحت رسانی کی اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تب ہر بار امریکہ نے اس سعی کو ناکام بنا دیا ہے اور اسرائیل کو جواز فراہم کیا ہے کہ تمام عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کر وہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دو مہینے سے کم مدت کے دوران ہی امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں دو بار اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے لئے کی جانے والی عالمی برادری کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال پہلی بار 18 اکتوبر کو کیا تھا اور بہانہ یہ پیش کیا تھا کہ جنگ بندی کے لئے پیش کئے جانے والے ریزولیوشن میں اس نقطہ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ دوسری بار جبکہ سیکورٹی کونسل کے تمام ممبران بشمول امریکی حلیف فرانس نے بھی غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اپنا ووٹ دیا تھا اس وقت بھی امریکہ نے اکیلے ہی اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈالا اور ایک بار پھر اس امید کو خاک میں ملا دیا کہ فلسطین کے مظلومین کی داد رسی کا راستہ نکل پائے گا۔ اس دوسری بار اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو کے استعمال کا بہانہ یہ پیش کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہوئے حماس کے حملہ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ صرف بہانے ہیں جن کی کوئی معقول توضیح و تشریح ممکن نہیں ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ فلسطینی معصوموں کے بہتے خون اور ان کے بھوک و پیاس سے بلکتے بچوں کی کوئی قیمت امریکی اداروں کی نظر میں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں امریکی حمایت میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری قتل و خون کے جس وحشیانہ عمل کو روکنے کی کوشش کی تھی اس کا سلسلہ مزید دراز ہوگا اور 20 لاکھ سے زائد قیمتی فلسطینی زندگیوں کو یقینی موت سے بچانے کی امید مزید مدھم ہوتی چلی جائے گی۔
اگر امریکہ کی پوری تاریخ میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اندر ویٹو پاور کے استعمال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک امریکہ نے 80 بار اس کا استعمال کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے 50 بار امریکی ویٹو کا استعمال خاص طور سے اسرائیل کے دفاع میں کیا گیا ہے۔بالخصوص ان ریزولیوشنز کو ناکام بنانے میں اس پاور کا استعمال کیا گیا ہے جن کے تحت اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ زمینوں سے انخلاکرے۔ امریکہ کے اس غیر اخلاقانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ سے بھلا اس کے سوا اور کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو بے حیثیت بنانے کے لئے ایک جانب دار سپر پاور کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار سونپ دیا گیا ہے، جس سے صرف کمزور قوموں کا گلا گھونٹنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس عمل سے امریکی نظام کے دوغلے پن کا بھی پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ایک طرف تو امریکی ادارے اسرائیل کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ حملوں میں اس بات کا دھیان رکھے کہ عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو اور دوسری طرف ہر اس قدم کو ناکام بنا دیتا ہے جس کا اٹھایا جانا ضروری ہے تاکہ عام انسانوں کی زندگیوں کو بچایا جانا ممکن ہو سکے۔ امریکی اداروں کا یہ دوہرا معیار اس کی شرست میں شامل ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ برسر اقتدار پارٹی ڈیموکریٹس ہے یا ریپبلکن ہے۔ خاص طور سے معاملہ اگر اسرائیل کا ہو تو پھر تمام اصول و قوانین بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور ہر حال میں صہیونی ریاست کے دفاع کا انتظام کیا جاتا ہے۔فلسطین اوراسرائیل قضیہ کے حل کے معاملہ میں امریکی ادارہ پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امریکہ کی جانب داری ہی اس مسئلہ کی تمام تر پیچیدگیوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ اس بار بھی یہ جانب داری صاف طور پر دیکھنے میں اس وقت آئی جب ریزولیوشن کے اختیار کرنے سے قبل اسپیشل عرب وزارتی کمیٹی واشنگٹن پہنچی تھی تاکہ امریکی وزیر خارجہ اور یہودی انٹونی بلینکن سے ملاقات کرکے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیل کے حملوں کو روکنے کے سلسلہ میں بات چیت کی جائے۔ بلینکن نے اس عربی وفد کو دو دنوں تک انتظار کروایا اور اس کے بعد ملاقات ہوئی لیکن فائدہ کچھ نہیں نکلا۔ اس کے برعکس سیکورٹی کونسل میں ویٹو پاور کا استعمال کرکے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کے جواب میں خلیجی ممالک کے امریکی حلیفوں کے پاس وہی پرانا اور غیر موثر نسخہ موجود ہے جس کو مذمت کہتے ہیں لہذا امریکی ویٹو کی مذمت کرکے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سکون حاصل کرلیا، لیکن اس پورے عمل سے ایک بات واضح ہوگئی کہ اسرائیل کے ساتھ ہی ایک مستقل فلسطینی ریاست کے قیام کی جتنی باتیں امریکہ کرتا ہے اس کا واحد مقصد عالمی برادری کو دھوکہ میں رکھنا اور فلسطینی ریاست کے عدم قیام کو یقینی بنانا ہے۔ ان دنوں برسوں سے بے جان پڑی فلسطینی اتھارٹی میں نئی زندگی پھوکنے اور حماس کے متبادل کے طور پر پیش کرکے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جن کوششوں کا بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں بھی کوئی سچائی نہیں ہے۔ امریکہ کو بس یہ خوف ستا رہا ہے کہ حماس کے خاتمہ کی صورت میں نہ جانے کونسا بھوت سامنے آ جائے جو حماس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو۔ کیونکہ امریکہ کو تجربہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی اس کی ہر جنگ کے نتیجہ میں ایک نئی قوت پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوکر ابھر آتی ہے۔ امریکہ نے جب افغانستان کو تباہ کیا تو القاعدہ اور عراق کو برباد کیا تو داعش جیسی جماعت ابھر آئی۔ اب فلسطین میں اس کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ اگر حماس جیسی تنظیم نہ رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خلا کو پْر کرنے کے لئے کوئی ایسی جماعت سامنے آ جائے جو اسرائیل کے وجود کو حماس سے زیادہ قوت کے ساتھ مسترد کردے، اس لئے فلسطینی اتھارٹی کے مردہ جسم میں روح پھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں لبنان کی طرح غزہ میں بھی ایران کا اثر و رسوخ اتنا نہ بڑھ جائے کہ اسرائیل کی سیکورٹی بالکل ناممکن بن کر رہ جائے۔ جہاں تک فلسطین کے تئیں حقیقی امریکی و اسرائیلی منصوبہ کا تعلق ہے تو اس کے تحت یہ کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کو جبراً اپنا گھر بار چھوڑنے اور انہیں جنوب کی طرف دھکیلنے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور 1948 جیسی نکبہ کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے تاکہ پوری فلسطینی زمین پر اسرائیلی قبضہ کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین مسئلہ سے امریکہ کو الگ کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ ایک ناقابل اعتماد فریق ثالث ہے۔ جہاں تک دوسرے ویٹو کے استعمال کے بعد امریکی امیج کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں وہائٹ ہاؤس کے قریبی مانا جانے والا امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں یہ بات وہاں کے عوام میں عام ہے کہ یہ لڑائی اگرچہ اسرائیل لڑ رہا ہے لیکن یہ جنگ اصلاً امریکہ کی ہے، کیونکہ اگر امریکہ کی سفارتی حمایت اور اسلحہ و ٹکنالوجی کے ذخیرے اسرائیل کو نہ ملتے تو اس کے بس کی یہ بات نہیں تھی کہ غزہ پر اتنی شدید بمباری کرتا جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایک افسر نے نومبر کے اخیر میں کہا تھا کہ وہاں مکمل قتل عام جاری ہے۔ آج مشرق وسطی اور پوری دنیا کے انصاف پسند لوگ بے بسی سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایسی عالمی قوت جو دن ورات انصاف اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہے وہ خود معصوموں کے خون بہانے میں مصروف ہے گویا غزہ کے معصوموں کی زندگیاں ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ حالانکہ امریکہ اگر چاہتا تو اس کے ایک اشارہ پر یہ جنگ رک سکتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ’ہیومن رائٹس واچ‘سے لے کر ’اوکسفام‘ اور ’ڈاکٹرز ویداؤٹ بارڈرز‘ سب نے یہ مانا ہے کہ ویٹو کے استعمال کے بعد امریکہ خود قتل عام کا مجرم بن گیا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں