اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل

0

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دنیامیں کیاحیثیت ہے ؟یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ہرکوئی جانتاہے کہ وہاں مسائل لے جانے کے بعدبین الاقوامی ادارہ حل کی گارنٹی نہیںدے سکتا ۔پھربھی دنیاکے ممالک یہ جانتے ہوئے بھی وہاں مسائل لے کر جاتے ہیںکہ ادارہ میں امریکہ اورمغربی ممالک کی اجارہ داری ہے۔ ان ہی کی مرضی سے قرارداد منطورہوتی ہے ، ورنہ ویٹو۔قرارداد منظوربھی ہوجائے تب بھی اس کے نفاذ کی گارنٹی نہیں ہے، کیونکہ نفاذ بھی امریکہ اورمغربی ممالک کے تابع ہے ۔تازہ مثال حماس اوراسرائیل جنگ ہے ، جسے بند کرانے کیلئے کتنی قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں اوران کو ویٹوکیا جاتارہا، بڑی مشکل سے ایک قرارداد منظورہوئی تو اس کا نفاذ نہیں ہوا۔ سلامتی کونسل سے جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل کے حملے اورجنگ جاری ہیں اوربے قصورلوگ مارے جارہے ہیں۔ایسے میں مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا یہ کہناغلط نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پرانے کلب کی طرح ہے ،جس پر بعض ارکان کاکنٹرول ہے ،وہ زیادہ ممبران کے داخلے یااصلاحات سے ادارہ پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرنا چاہتے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے ادارہ دنیا کو درپیش مسائل کے حل میں کم مؤثر ہوتاجارہاہے ۔واضح رہے کہ ہندوستان اوردنیاکے کئی اورممالک اقوام متحدہ میں اصلاحات اورسلامتی کونسل میں توسیع چاہتے ہیں اوروہ مستقل رکنیت کے مضبوط دعویدار ہیں ۔ موجودہ مستقل ارکان امریکہ ، روس ، چین ، فرانس اور برطانیہ میں سے چین کو چھوڑ کر تقریباًسبھی ممالک انفرادی طور پر مستقل رکنیت کے ہندوستان کے دعوی کی حمایت کرتے ہیں ، لیکن بات جب اجتماعی طورپر کچھ کرنے کی ہوتی ہے، تو اس وقت کچھ کرنے کو تیارنہیں ہوتے ۔ ا س وقت ان کے ظاہر وباطن میں تضاد نظر آتاہے۔ یہ صورت حال کئی برسوں سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تشکیل کے بعد سے آج تک اس ادارے میں اصلاحات نہیں ہوسکیں ۔ وقت کے ساتھ اقوام متحدہ کے ممبران کی تعداد بڑھتی رہی ، لیکن سلامتی کونسل کے مستقل اور عبوری ارکان کی تعداد اب تک منجمد رہی ۔
24اکتوبر 1947کو جب اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی تھی تو اس وقت 51ممبرتھے ، جو آج بڑھ کر 193ہوچکے ہیں، ہندوستان بھی بانی ممبران میں سے ایک ہے ۔ تشکیل کے وقت جو مستقل ممبران منصوبہ بندطریقے سے اس پر تھوپ دیئے گئے ، ان کی اجارہ داری آج بھی قائم ہے ، جو اپنی مرضی سے قرارداد منظورکراتے ہیں، بصورت دیگر ویٹو کرکے بے اثر کردیتے ہیں اور دنیا کے ممالک چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے ۔فی الحال دنیا کے ممبرممالک میں سے کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا، جو اقوام متحدہ میں اصلاحات نہیں چاہتاہو، لیکن کسی کے چاہنے سے وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ وہاں وہی ہوتاہے ، جو مستقل ارکان چاہتے ہیں ، جن کے درمیان اب اتفاق پیداکرنابھی بہت مشکل ہے ۔یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ کمزور ممالک کے خلاف وہاں سے قرارداد آسانی سے منظورہوجاتی ہے اوراس کا نفاذ بھی ہوجاتاہے ، لیکن امریکہ اور اسرائیل کے فیصلوں کے خلاف قرارداد منظورنہیں ہوپاتی ۔ امریکہ نے سب سے زیادہ اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی قرارداوں کا ویٹو کیاہے ۔اس طرح وہاں ویٹوپاوروالے ممالک کی مرضی چلتی ہے ، یادوسرے الفاظ میں وہ منمانی کرتے ہیں ۔سلامتی کونسل پر فیصلہ تھوپا جاتاہے ، وہ آزاد ہوکر فیصلے نہیں کرتی ہے ۔ سلامتی کونسل کو پرانے کلب کی تشبیہ دیناغلط نہیںہے ۔ہر کوئی جانتاہے کہ کلب میں کیا ہوتاہے ، اس کے ممبران تو بہت ہوتے ہیں ، لیکن وہ کلب چند ہی بااثر ممبران کے اشاروں پر چلتاہے ۔باقی ممبران چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپاتے ہیں ۔بس وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے ہیںکہ وہ کلب کے ممبر ہیں ۔یہی حال سلامتی کونسل کا ہے ۔
موجودہ دور میں نہ صرف دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، بلکہ معاشی اوردفاعی طاقت کاتوازن بھی بدل رہا ہے۔ ایسے میں طاقت کا ارتکازمناسب نہیں ہے۔ اگربدلتے حالات کے حساب سے اقوام متحدہ میں اصلاحات نہیں کی گئیں، تو یہ ادارہ بے اثر ہوجائے گا ۔آج امریکہ کی بھرپور حمایت کی بدولت اسرائیل پر اقوام متحدہ کی اپیلوں کا کوئی اثر نہیں ہے ، کل دوسرے ممالک کسی اورمستقل ممبر کی حمایت سے اسرائیل کی طرح منمانی کریںگے ۔سبھی کیلئے یکساں اصول ہونا چاہئے۔ ایسانہیں ہے کہ اپنے اورحلیف ممالک کیلئے الگ اصول اوردنیاکیلئے الگ اصول ۔ یہی تفریق انصاف اورمساوات کو ختم کردیتی ہے اور ادارہ کو بے وزن بنادیتی ہے۔آج سلامتی کونسل ہی نہیں ، اقوام متحدہ کے تمام اداروں کا یہی حال ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS