بادی النظر میں جو نا انصافی لگے وہ انصاف نہیں فیصلہ ہوتا ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

جس دن سپریم کورٹ کے جج جسٹس جوزف کی بنچ نے ہیٹ اسپیچ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتظامیہ کو حکم دیا اور آگاہی دی کہ ایسی تقریروں کے خلاف شکایت درج کرانے کا انتظار کیے بغیر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ضلع انتظامیہ ایف آئی آر درج کر کے فوری کارروائی کرے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کو توہین عدالت سمجھا جائے گا، اس کے دوسرے یا تیسرے دن ہی اترپردیش کے ممتاز مسلم رہنما اور رام پور سے کئی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اعظم خان کو ضلع کے ایم پی ایم ایل اے کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی اور معاشی جرمانہ عائد کر دیا۔ اسی شام یوپی اسمبلی کے اسپیکر ستیش مہانہ نے حسب قانون ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو رام پور اسمبلی سیٹ خالی قرار دینے اور وہاں ضمنی الیکشن کرانے کی سفارش کردی۔عدالت کا فیصلہ آتے ہی بھلے ہی سماج کے ایک مخصوص ذہنیت والے طبقے نے بغلیں بجائی ہوں مگر انصاف پسند ایماندار اور سیکولر طبقہ انگشت بدنداں ہے کہ ہمارے ملک کے عدالتی نظام کو کیا ہو گیا ہے کہ انصاف کے نام پر انصاف کا بے دردی اور بے حیائی سے قتل کیا جارہا ہے، یہاں تک کہ دل کے مریض اعظم خان کا بیان اس وقت لیا گیا جب وہ دہلی کے اسپتال میں زیر علاج تھے، عدالت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دل کے مریض سے ایسی حالت میں بیان درج کرانا اس کی جان کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔ کیا اسپتال سے ان کے ڈسچارج ہونے کے بعد بیان نہیں درج کرایا جا سکتا تھا۔ ایسی کون سی آفت آئی جا رہی تھی کہ ملزم کی جان ہی خطرے میں ڈال دی جائے؟ کیونکہ اعظم خان کی جس تقریر کی بنا پر ان کے خلاف یہ مقدمہ درج ہوا تھا اور جس برق رفتاری سے عدالت نے اس پر یہ فیصلہ سنا دیا، اسے سن کر کوئی بچہ بھی کہے گا کہ اس میں ہیٹ اسپیچ جیسی تو کوئی بات ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں وہ دفعات لاگو ہوتی ہیں جو اس مقدمہ میں لگائی گئی ہیں۔یہ زیادہ سے زیادہ بدزبانی، بدتمیزی اور بدگوئی کے زمرہ میں آتا ہے اور اگر تعزیرات ہند میں ان جرائم کے خلاف کوئی دفعہ ہے تو اس کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے تھے۔
یہ درست ہے کہ اعظم خان اپنی بدزبانی، بدتمیزی اور تکبر کے لیے بدنام ہیں، جب وہ برسر اقتدار ہوتے ہیں تو اقتدار کا نشہ ان کے سر پر چڑھ کر بولتا ہے، بھری میٹنگوں میں سینئر افسران سے بدتمیزی کرنا اور انہیں سر عام بے عزت کرنا ان کی عادت کا حصہ ہے۔ رام پور میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کا رویہ بیحد جابرانہ، معاندانہ اور توہین آمیز ہوتا ہے۔رام پور سے پارلیمنٹ کا چناؤ لڑ رہی اپنی ہی پارٹی کی امیدوار اور اداکارہ جیا پردا کے خلاف جو باتیں کہیں تھیں، وہ کوئی شریف آدمی کہنا تو در کنار سننا بھی پسند نہیں کرے گا جبکہ ایک ہی پارٹی میں رہتے ہوے جیا پردا انہیں اعظم بھائی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، یہ وہ دور تھا جب اعظم خان اپنی سماج وادی پارٹی میں امر سنگھ کے بڑھتے اثرات سے ناراض ہو کر پارٹی چھوڑ چکے تھے۔موجودہ معاملہ بھی ان کی ایسی ہی ایک بدزبانی کو لے کر ہے۔2019کے پارلیمانی الیکشن کے دوران رامپور کے ملک اسمبلی حلقہ میں7؍اپریل کو ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے رامپور کے ضلع مجسٹریٹ اے کے سنگھ کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف غیر مہذب الفاظ استعمال کیے تھے یہاں تک کہ جوش خطابت میں ڈی ایم کی والدہ کو بھی لپیٹ لیا تھا، اس کے بعد ویڈیو مانیٹرنگ ٹیم کے انچارج انل کمار چوہان کی طرف سے ملک تھانہ میں9؍اپریل کو رپورٹ درج کرائی گئی۔ان پر دفعہ153(الف) مذہبی جذبات بھڑکانے اور امن عامہ متاثر کرنے والی دفعہ 505، دوسرے طبقہ کے خلاف دشمنی بھڑکانے اور عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ125انتخابی فائدہ کے لیے دو طبقوں میں دشمنی پیدا کرنے کا معاملہ درج ہوا تھا۔فاضل جج صاحب نے ظاہر ہے بہت سوچ سمجھ کر اور خوب غور و خوض کرکے فیصلہ صادر کیا ہوگا لیکن ایک عام آدمی کی سمجھ میں اعظم خان کی تقریر میں ایساکچھ بھی نہیں جس سے دو طبقوں میں، مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلے۔ اگر انہوں نے یہ کہا تھا کہ جب سے مودی جی اور یوگی جی بر سر اقتدار آئے ہیں تب سے ملک کے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے تو یہ ان کی پالیسی، طریق کار اور طرز حکمرانی پر نکتہ چینی ہے جس کا ہر جمہوری ملک میں عوام کو حق حاصل ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی کا بھی معاملہ ہے۔کیا اعظم خان نے اپنی تقریر میں اکثریتی طبقہ کے خلاف کچھ کہا تھا؟ کیا اکثریتی اور اقلیتی فرقوں کو آپس میں لڑانے والی کوئی بات کہی تھی؟عام فہم انسان کوتو ایساکچھ نہیں لگتا ،ماہرین قانون کی رائے کچھ بھی ہو۔
یہاں پر حکومت اور انتظامیہ ہی نہیں عدالتوں کا بھی دوہرا رویہ کھل کر سامنے آتا ہے، وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر بی جے پی کا معمولی ادنیٰ کارکن بھی انتخابات کے دوران اور عام دنوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف کھل کر زہر افشانی کرتا ہے۔ شمشان قبرستان، ایسا بٹن دباؤ کہ جھنجھناہٹ شا ہین باغ تک جائے، گولی مارو سالوں کو۔۔۔ جیسے نہ جانے کتنے الفاظ سننے کا اور انتظامیہ، عدلیہ الیکشن کمیشن کا ان بیانوں اور نعروں پر چشم پوشی کا اس ملک کا مسلمان عادی ہو چکا ہے۔مودی جی کے ایک بیان کے خلاف الیکشن کمیشن میں کانگریس نے شکایت درج کرائی۔ تینوں الیکشن کمشنروں کی میٹنگ میں اس پر غور کیا گیا۔دو الیکشن کمشنروں نے مودی جی کو کلین چٹ دے دی مگر ایک کمشنر (مسٹر لہاسہ یا لواسہ ) نے اختلافی نوٹ لکھا چونکہ مودی جی کو کلین چٹ اکثریت سے ملی تھی، اس لیے ان پر کوئی ایکشن نہیں ہوا لیکن اختلافی نوٹ میں مذکورہ الیکشن کمشنر نے کیا لکھا تھا، یہ رپورٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک نہیں معلوم ہو سکا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ چونکہ وہ سینئرٹی کے لحاظ سے اگلے چیف الیکشن کمشنر ہوسکتے تھے، اس لیے انہیں کمیشن سے ہٹا کر کسی عالمی تنظیم میں نامزد کر دیا گیا۔
عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور صرف مسلمان ہی نہیں سماجی حقوق انسانی کے کارکن ہوں یا بیباک صحافی یا کوئی اور اگر وہ حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے حکومت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور زیادہ تر معاملات میں عدالت سے بھی اسے راحت نہیں ملتی۔ تیستا سیتلواڑ، سنجیو بھٹ، عمر خالد، شرجیل امام سے لے کر پروفیسر ہمانشو کمار تک ایسی سیکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں سپریم کورٹ تک کے فیصلے فطری انصاف کے تقاضوں پر کھرے نہیں اترتے۔ برسوں سے لوگ ضمانت کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن عدالتیں اسے نہ فطری انصاف کے پیمانے سے دیکھتی ہیں نہ حقوق انسانی کے پیمانے پر، ہمدردی، وسیع القلبی کی بات تو بہت دور ہے۔عدالتوں کے اس رویہ کو ہی ملک کے ممتاز دانشور پروفیسر بھانو پرتاپ مہتا نے عدالتی ظلم(جوڈیشل باربرزم)قرار دیا ہے جبکہ پروفیسر ہمانشو کمار نے ججوں کے نام اپنے کھلے خط میں ان کے رویہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے یہ تک لکھ دیا تھا کہ ’’میں یہ کھلا خط جان بوجھ کر آپ کی بے عزتی کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ مجھ کو توہین عدالت کا مجرم قرار دے کر جیل میں سڑا دیں۔‘‘
جہاں تک مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک کی بات ہے تو یہ بات تو اب ملک کی سرحد سے نکل کر عالمی پیمانہ پر پہنچ گئی ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا ہے۔مذہبی آزادی کی انٹرنیشنل رینکنگ میں ہندوستان بہت نچلی سطح پر آگیا ہے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی ہندوستان میں حقوق انسانی کی گرتی سطح اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا معاملہ اٹھایا اور حکومت ہند کو گاندھی جی کے بتا ئے اصولوں پر چلنے کی تلقین کی۔ملک کے انصاف پسند اکثریتی طبقہ کے لوگ بھی بارہا اس رویہ کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔حکومت، میڈیا، عدلیہ، سرکاری مشینری کا جتنا بیجا استعمال کرکے جو چاہے کرے کیونکہ فی الحال اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے لیکن ’’جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘‘
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS