کشمیر میں باالآخر درگاہوں اور زیارتگاہوں کی ڈیوڑیاں کھل گئیں،عقیدتمندوں میں جوش و خروش

    0

    سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
    اب جبکہ کووِڈ-19 سے متعلق مہینوں پر محیط لاک ڈاون میں نرمی آئی ہے سرینگر اور وادیٔ کشمیر کے دیگر علاقوں میں سبھی مذہبی مقامات باالخصوص زیارتگاہوں کو پانچ ماہ بعد کھول دیا گیا ہے۔عقیدتمندوں کیلئے اسے نیک شگون قرار دیتے ہوئے ان زیارتگاہوں کے مجاوروں اور منتظمین نے صفائی ستھرائی کا کام شروع کیا ہے اور ساتھ ہی عقیدتمندوں سے یہاں حاضری دینے کے دوران کووِڈ19- کے پروٹوکول کا بھرپور خیال رکھنے کی اپیل کی ہے۔سرینگر اور وادی کے دیگر شہروں اور قصبہ جات میں آج سے بازار کہیں جزوی اور کہیں کُلی طور بحال ہوگئے تاہم زیارتگاہوں کو اتوار کے روز ہی کھول دیا گیا تھا۔سرینگر میں ڈل جھیل کے کنارے کشمیر یونیورسٹی کے قریب واقع سب سے بڑی زیارتگاہ درگاہ حضرتبل، خانقاہِ معلیٰ،مخدوم صاحب ،سعید صاحب سونہ وار اور دیگر سبھی زیارتگاہوں سے متصؒ مساجد میں باضابطہ اذانیں  دی جانے لگی ہیں اور نمازیں بحال ہوگئی ہیں۔ان سبھی زیارتگاہوں میں دھیرے دھیرے عقیدتمندوں کا آنا بھی بحال ہوگیا ہے جبکہ منتظمین صفائی ستھرائی کے کام میں مصروف ہو گئے ہیں۔درگاہ کے ایک منتظم نے کہا کہ پانچ ماہ تک زیارتگاہ عملاََ لوگوں کیلئے بند تھی جو کسی بد شگونی سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ عام حالات میں عقیدتمندوں سے بھری رہنے والی اس زیارتگاہ میں سناٹا چھائے دیکھ کر انہیں بہت بُرا لگتا تھا لیکن اب یہاں کی رونقیں بحال ہونے لگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہینوں کی بندش کے بعد زیارتگاہ کے کھولے جانے پر کئی عقیدتمندوں نے یہاں حاضری دی اور انہیں جذباتی ہوتے دیکھا گیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہاں آنے والے عقیدتمند پوری طرح سے کووِڈ19- کے پروٹوکول کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔ چناچہ درگاہ کے صحن میں جتنے بھی لوگ موجود پائے گئے ان سبھی نے نہ صرف ایکدوسرے سے خاصا فاصلہ بنائے رکھا ہوا تھا بلکہ انہوں نے ماسک بھی پہن رکھے تھے۔
    سرینگر شہر کے بیچوں بیچ خانیار میں واقعہ شیخ عبد القادر جیلانی سے منسوب،دستگیر صاحب کے نام سے مشہور، زیارتگاہ پر بھی کئی لوگوں کو حاضری دیتے دیکھا گیا اور یہی حال دیگر معروف زیارتگاہوں کا بھی تھا۔ جنوبی کشمیر میں معروف کھرم درگاہ سے ذرائع نے بتایا کہ یہاں بھی عقیدتمندوں نے حاضری دینا شروع کیا ہے۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کئی عقیدتمندوں نے کہا کہ ایک طرف وبا اور دوسری طرف مذہبی مقامات بشمولِ مساجد و درگاہوں کے بند رہنے سے وہ ذۃنی بے سکونی کا شکار ہو گئے تھے لیکن اب جبکہ یہ مقامات انکے لئے کھول دئے گئے ہیں انہیں سکون مل رہا ہے۔عبدالغفار نامی ایک بزرگ نے کہا 
    ’’شکر ہے کہ ہم نے ایک بار پھر مساجد و زیارتگاہوں کو بحال ہوتے دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ اب اللہ ہماری بخشش فرمائے گا اور ہمیں وبا سے بھی نجات ملے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقامات ان خدا دوست شخصیات کے ساتھ منسوب ہیں کہ جنکی قربت میں آکر یادِ خدا میں اثر پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں اتنا غم وائرس کا نہیں تھا جتنا کہ مذہبی مقامات کے بند ہوجانے کا تھا۔نذیر احمد نامی ایک اور شخص نے کہا کہ اگرچہ مذہبی مقامات بحال ہوگئے ہیں جو ایک خوشخبری ہے لیکن انہیں ہمیشہ یہ دکھ رہے گا کہ ماہِ رمضان کے مقدس ایام میں یہ مقامات لوگوں کی پہنچ سے دور رہے جو اپنے آپ میں ایک بد شگونی اور بد قسمتی کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ ان مقامات کے کھل جانے سے لوگ یہاں آکر سچے دل سے عبادت کریںگے اور اللہ کے فضل سے وبا اور دیگر پریشانی چھٹ جائیں گی۔
    کووِڈ19- سے بچاؤ کی کئی تدابیر کے ساتھ ساتھ حکومت نے مذۃبی مقامات کو بھی بند کرادیا تھا اور قریب پانچ ماہ تک لوگوں کو ان مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی جو کئی لوگوں کیلئے انتہائی صدمے کا باعث تھا۔تاہم سرکار نے اب دھیرے دھیرے لاک ڈاون میں نرمی لاتے ہوئے مذہبی مقامات کو بھی کھول دینے کا فیصلہ لیا ہے تاہم لوگوں سے ان مقامات پر حاضری دینے کے دوران سبھی وضع کردہ احتیاطی اقدامات کا خیال رکھنے کیلئے کہا گیا ہے۔سرکاری ذڑائع نے بتایا کہ اگرچہ حکومتِ ہند نے جون کے اواخر میں ہی مذہبی مقامات کو کھول دینے کا فیصلہ لیا تھا تاہم یونین ٹریٹریز اور ریاستوں کی مقامی سرکاروں کو اس حوالے سے حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ جموں کشمیر میں چونکہ کووِڈ19-کی وبأ پھیلتی ہی جا رہی ہے لہٰذا یہاں کی انتظامیہ نے ابھی تک مذۃبی مقامات پر لوگوں کی حاضری پر پابندی برقرار رکھی تھی۔ ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ان مقامات کو کھول تو دیا گیا ہے تاہم یہاں بڑے اجتماعات کے انعقاد پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لوگ احتیاط برتیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ مذہبی مقامات کو دوبارہ بند نہیں کرنا پڑے گا تاہم کسی بھی قسم کی بے احتیاطی سخت فیصلے لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS