سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

0

یہ درست کہ اپنے اقتدار کے عارض و رخسار کی زیبائش برقرار رکھنے کیلئے مودی حکومت جمہوریت کی رگ جاں سے لہو نچوڑ رہی ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ ہنگامی تقاضوں کی وقتی مجبوریوںنے حکومت کی مرضی کو آئینی اداروں کا منشور بنادیا ہے۔ یہ بھی بجا کہ اظہار رائے کی آزادی سنگینوں کے سایہ میں ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان جنت نشان آج بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ علیحدہ علیحدہ جغرافیائی خطوں میں مکین آبادیاں جدا جدا مذہب، زبان و ثقافت کے باوجود ایک آئین کی پابند ہیں وہ آئین جو انہیں شہری کے درجہ سے اٹھاکر حکمراں کے درجہ پر بھی فائز کرتا ہے اور حکمرانوں کو عوامی احتساب کے کڑے امتحان سے بھی گزارتا ہے۔یہ کڑا امتحان اگلے سال پھر آنے والا ہے، حکومت کی کارکردگی کا کھاتہ کھلے گا،جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی پر حملہ، میڈیا کو پابند اور آئینی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش، اقلیتوں کو ہراساں کیے جانے کے معاملات، عدالتی نظام میں بڑھتی مداخلت، عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے غیر آئینی اقدامات کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ملک کی منتخب حکومت کے خلاف ہرزہ سرائی کرے اور اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے عوامی مینڈیٹ کے تقدس کو پامال کرے۔
یہ پامالی چاہے کسی دوسرے ملک کی منتخب مقننہ ہی کیوں نہ کرے، اسے کسی بھی حال میں گوارا نہیں کیا جاسکتا ہے۔خاص کر ایک ایسی قوم جس کا نامہ اعمال ظلم و جبر،قتل و غارت گری، تذلیل آدم کے ان مٹ نقوش سے آج بھی انسانیت کو لرزہ براندام کردیتا ہو، اس کی مقننہ مقررہ حدود سے باہر آکر اگر کسی ملک کے اندرونی معاملات پرا پنی ’تشویش‘ کا اظہار کرے تو اسے برداشت نہیں کیاجاسکتا ہے۔
خبر ہے کہ ہندوستان میں کام کرنے والی برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی) کے ممبئی اور دہلی دفاتر پر انکم ٹیکس کے سروے کو موجودہ انگلینڈاور بندوق کی نوک سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ لکھنے والا سابقہ برطانیہ عظمیٰ ’تشویش‘ کی نظروں سے دیکھ رہاہے۔بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کے سروے کا معاملہ اس کی ایوان میں زیر بحث ہے اور انگلینڈ کی حکومت، حزب اختلاف ’لیبر پارٹی ‘دونوں نے متحد ہو کر اس معاملے پر بی بی سی کا دفاع کیا اورمحکمہ انکم ٹیکس سروے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے میڈیا کو ہراساں کرنے کی کوشش بتایا ہے۔ ایوان میں حزب اختلاف ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (ڈی یو پی) کے ایک رکن نے انگلینڈ کے دفتر خارجہ پرالزام لگایاتھا کہ وہ اس معاملے میں خاموش تماشائی بناہوا ہے جس کے جواب میں حکومت کی جانب سے غیر ممالک، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر کے محکمہ کے اڈیشنل سکریٹری ڈیوڈ رٹلی نے کہاکہ ان کی حکومت، ہندوستان میں بی بی سی کے ساتھ ہورہے سلوک کو میڈیا کو ہراساں کرنے کے طور پر دیکھ رہی ہے اوراس پر اسے تشویش ہے۔ڈیوڈرٹلی کے اظہار تشویش پر حکمراں اور حزب اختلاف دونوں باہم شیر و شکر ہوگئے، ایوان کے دورافتادہ گوشوں سے بھی تائید کی بلند بانگ آواز اٹھی اور ہندوستان کی ’جمہوریت‘ پرتوپ کے دہانے کھول دیے گئے۔ حکمراں کنزر ویٹو پارٹی کے رکن سرجولین لیوس کی یاوہ گوئی کو سندتوثیق دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رکن قانون سازفیبین ہیملٹن نے ’ تشویش‘ کو ’ انتہائی تشویش‘ تک پہنچادیا۔جب کہ ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کے جم شینن نے جوش غضب میں اسے میڈیا کو ڈرانے اور دھمکانے کی کارروائی تک قرار دے دیا۔
جمہوریت کی خوش رنگ قبا میں ملبوس معززارکان قانون سازیہ اسی برطانیہ عظمیٰ کے فرزند ہیں جس کے دامن پرآج بھی شہید صحافت مولوی محمد باقر کاخون ان کے ظلم و جور اور انسان دشمنی کی کہانی سنا رہا ہے۔ مولوی محمد باقر بھی صحافی تھے وہ بھی اردو کے صحافی، انہیں پہلی جنگ آزادی1857کی رپورٹنگ کرنے اور آنکھوں دیکھا حال عوام تک پہنچانے کے ’ جرم‘ میں توپ کے دہانے کے سامنے کھڑا کرکے شہید کردیاگیاتھا، ان کے فزرند مولوی محمد حسین آزادکی گرفتاری کیلئے کنوئوں میں بانس تک ڈلوادیے گئے۔حسرت موہانی، محمد علی جوہر، ظفر خان، ابوالکلام آزاد، انور شاہ کاشمیری،عطاء اللہ شاہ بخاری یہ سب صحافی ہی تھے جنہیں مشق سخن کے ’جرم‘ میں قید و بند کی صعوبتیں اورچکی کی مشقت سے گزاراگیا۔یہ سب انہوں نے ہی کیا جو آج جمہوریت کی امامت کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں۔
مانا کہ ہندوستان میں جمہوریت پر بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں، اظہار رائے کی آزادی سنگینوں کے سایہ میں ہے لیکن دوسروں کو یہ قطعی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ کسی آزاد، جمہوری ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔ مودی حکومت کی جمہوریت دشمنی کے الزامات کا حساب لینے کیلئے ہندوستان کے عوام ہی کافی ہیں،ویسے حساب کتاب کے دن بھی قریب آرہے ہیں۔اپنے نو سو چوہے پورے کرلینے والوں کو ’تشویش‘ اور ’انتہائی تشویش‘ کا اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جن کے سامنے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ڈھیر ہو، انہیں جام شکنی کی نصیحت نہیں کرنی چاہیے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS