وطن پرستی ، مذہب اور جمہوری نظام حکومت

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

پچھلے ہفتہ جسٹس دھننجے یشونت چند چوڑ نے سپریم کورٹ میں ایک سماعت کے دوران سالی لیٹر جنرل تشار مہتا اور سینئر وکیل کپل سبل کو مہذب انداز میں پھٹکار لگائی ہے۔ اس پر کپل سبل تو بدل گئے اور انہوں نے کہا کہ مائی لارڈ میں ابھی سیکھ رہاہوںو جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ہمیں بھی سکھانا آتا ہے۔‘‘ جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے قانونی حقوق کو دستور میں واضح کردیا ہے ۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اب قوم پرستی بنام مذہبی آمریت اہم ایشو ہوگا؟ ضروری ہے کہ اب ذات پات پر مبنی تفریق کو ختم کیا جائے۔
جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ یہ لازمی ہے کہ سماج کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز طبقہ کے لوگ ماضی کی پابندیوں سے آزاد ہوکر حاشیہ پر رہ رہے طبقات کو تسلیم کریں گے اور ان کو عزت دیں گے۔ سماج میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نظریات کو آج کے تناظر میں استعمال کرناہوگا۔ سماج کے مین اسٹریم کو نظر انداز کرکے کنارے ہوئے حاشیہ پر پڑے طبقات عورتوں ، ہم جنس پرستوں اور معذور لوگوں کی حیثیت صرف نچلے طبقات کے لیے ہوتے ہیں۔ بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی ہوتے ہیں جو مین اسٹریم کے اصولوں سے بھٹک جاتے ہیں۔ اس سے حیران اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئین سازوں نے اسے ظاہر اور جسمانی ہونے کی ضرورت نہیں ہمیں 74 سال پہلے انصاف، آزادی اور سب کے لیے حقوق دینے والا آئین دیاہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا سماج مذہب، ذات پات، جنس اور معیشت کا غلام ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کانگریس؛ تحریک آزادی کی پارٹی سے پر تقسیم ہوچکا ہے کانگریس پارٹی خاندان پرستی ‘ اورگاندھی خاندان’ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
ملک قریبی علاقوں میں اسلامی بنیاد پرستی ابھرچکی تھی ۔ ‘لسانیت بمقابلہ حب الوطنی’؛ آج ایک پرانی بحث ہے۔ حب الوطنی اور نسل پرستی کے ایشوز پر بات کرنا، ملک میں اختلاف اور اختلاف پیدا کرنے اوران اختلافات کو جرم قرار دینا جمہوریت کو کمزور کرتاہے۔ اس کی ابتداء 19 ویں صدی کی ‘یورپی قوم پرستی’ سے ہوئی، جس کی جڑیںعہدۂ وسطیٰ کے مشرق وسطیٰ میں ہیں، جہاں مسلم اکثریتی ریاست میں عیسائیوں اور یہودیوں کو دوسرے درجے کی شہریوں کی سلوک کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کو ‘ملی جلی تہذیب ورثہ میں ملی ہے، یہاں کوئی بھی ہندوستانی شہری مذہب یا زبان کے اعتبار سے دوسرے سے برتر نہ ہو۔ حب الوطنی کئی سطحوں پر کام کرتی ہے۔ سخاوت کی طرح؛ یہ گھر سے شروع ہوتی ہے! حب الوطنی اپنے پڑوس، شہر، ریاست اور ملک کی فکر کا نام ہے اور ہر ایک اکائی دوسرے کی کمی کو پوری کرتی ہے۔ ریاست کے جھنڈے سے ملک سے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ‘کیٹالون کے رہنے والوں’ نے خود مختاری کا اعلان کیا ہے کیونکہ اسپین نے انہیں بہت سی دیگر مراعات کے علاوہ اپنی زبان بولنے کا حق بھی نہیں دیا تھا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے کہا، “مذہب میں بھکتی نجات کا راستہ ہے، جب کہ سیاست میں عقیدہ کی آمیزش آمریت کی طرف لے جاتی ہے”۔ یہ اصول کسی ایک سیاسی نظریے کے لیے نہیں ہے۔ ہرکسی کو اپنی ثقافت میں جڑیں رکھنے اور دوسروں سے سیکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ایک سچے وطن پرست میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ریاست اور معاشرے کی ناکامیوں کی سمجھاسکے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرے۔ آئینی حب الوطنی آج بنیاد پرستی کی شکل میں ہے، جہاں ایک مذہب، ایک زبان اور مشترکہ دشمن؛ ‘پاکستان’، ایک ہندوستانی شناخت؛ قوم پرستی کی تعریف کی بنیاد بن گئی ہے۔ ہمارے ملک کے بانیوں نے یورپی قوم پرستی کے ماڈل کو مسترد کیا جبکہ پاکستان ایک ماڈل یوروپی ریاست(European State) کی مثال ہے۔ اسے ‘oligarchy’ کہتے ہیں۔ ہمارے آئین کے بنانے والوں نے ہماری قوم کو تنوع، معاشی خود کفالت اور قانون کے ساتھ مساوات کے مشترکہ نظریات کی بنیاد پر قائم کیاگیا ہے۔
ہندوستان میں بنیاد پرستی کی نمائندگی کرنے والی کوئی بھی پارٹی حب الوطنی کی نمائندگی کرنے والی جدید جماعت نہیں ہو سکتی۔ بنیاد پرستی ایک ایسی اصطلاح ہے جو کئی دہائیوں سے سیاست میں مذہب کے امتزاج کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ ‘مذہبی بنیاد پرستی تقریباً ہمیشہ ‘روایتی، دقیانوسی طرزفکر، دنیا سے وابستہ رہتی ہے۔ اس کا اظہار وہ لوگ کرتے ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ اگر تمام لوگ اپنے عقیدے کی مقدس کتب ‘اپنے خدا’ کی پیروی کریں تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوگی۔ مزید برآں، بہت سے لوگوں کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کا مطلب جدیدیت کو مسترد کرنا اور ماضی کی طرف لوٹنے کی خواہش ہے۔ شاید افسانوی دور میں جب لوگ ‘خدا کے دائرہ اختیار’ میں رہتے تھے۔ اسے یورپ میں ‘تھیوری آف ڈیوائن رائٹس’ کہا جاتا ہے۔ اس کا استعمال دنیا بھر میں، کبھی کبھی متنوع، مذہبی تحریکوں کو بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے کیا گیا ہے جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی سیاسی عزم کے ساتھ ہیں۔لفظ ‘بنیادی’ کا اطلاق سب سے پہلے امریکی ‘پروٹسٹنٹ’ نے 1920 کی دہائی میں کیا تھا۔ بنیاد پرست عقائد کا کردار یا اثر بہت سے معاصر ممالک اور مذاہب میں ریاست اور معاشرے کے تامل میل کے گرد گھومتے ہوئے اخلاقی اور معاشرتی مسائل کے گٹھ جوڑ میں واقع ہے۔ ‘جدیدیت’ نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو گہرے اور بعض اوقات پریشان کن طریقوں سے متاثر کیا۔ بنیاد پرستوں کے لیے یہ ابتدائی دفاعی انداز میں ظاہر ہوا جو بالآخر بہت سے لوگوں کے لیے سیاسی سخت گیری میں بدل گیا، جس نے ریاست اور معاشرے کے تعلقات کی مروجہ سماجی اور سیاسی حقائق کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں، بنیاد پرست رہنماؤں کے لیے ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنا نسبتاً آسان تھا جو محسوس کرتے تھے کہ کسی طرح معاشرہ خدا کی مرضی یا ان کے طبقہ کے مفادات کے مطابق ترقی نہیں کر رہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا مناسب ہے کہ جسے عام طور پر مذہبی بنیاد پرستی کہا جاتا ہے اس کے مختلف مظاہر مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف اوقات میں مختلف گروہوں کو متاثر کرتے رہے ہیں۔ اس کے نتائج کو سمجھے بغیر غیر آئینی عملی طور طریقوں کی پیروی کرتے ہوئے مختلف مذاہب کے نوجوانوں میں بنیاد پرستی کو دیکھنا واقعی تشویشناک رویہ ہے۔ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ ہمیں تمام مذاہب کی برابری کے حوالے سے ملک کی خودمختاری کو سب سے آگے رکھنا ہے۔ واسودیو کٹمبکم میں جنونیت کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
(مضمون نگارسینئر صحافی، سیاسی مبصر ہیں اور انسانی حقوق رضا کار ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS