آبادی کنٹرول اور جنسی تناسب پر مبنی اقدامات کی اہمیت

0

صبیح احمد

ابھی گزشتہ ہفتہ ایک انتہائی دلچسپ خبر سننے کو ملی۔اکثر جائیداد کے لیے والدین کے خلاف اور اخیر وقت میں دیکھ بھال اور نگہداشت کے لیے اولادوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اب خبر یہ ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑنے نے پوتا پوتی پیدا نہ کرنے پر اپنے بیٹے اور بہو کے خلاف ایک عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ دوسری جانب آج سے کچھ سال قبل، جہاں تک یاد آ رہاہے 2019 میں، ایک اور شاید دلچسپ نہیں بلکہ عجیب و غریب خبر سننے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ خبر یہ تھی کہ دنیا میں کچھ لوگوں کا ایک گروپ بچوں کی پیدائش کے سخت خلاف ہے اور یہ لوگ نہیں چاہتے کہ دنیا میں کوئی نیا بچہ پیدا ہو۔ یہ طبقہ دنیا سے انسانی نسل کے خاتمہ کی بات کرتا ہے۔ ہے نہ، دونوں ہی دلچسپ اور عجیب و غریب خبریں!
شمالی ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ میں ایک جوڑے نے اپنے بیٹے اور بہو کے خلاف شادی کے 6 سال بعد پوتا پوتی نہ دینے پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی جمع پونجی بیٹے کی پرورش، اسے پائلٹ کی تربیت دلوانے اور اس کی شادی کی شاندار تقریبات پر خرچ کر دی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے اگر ایک سال کے اندر اندر کوئی پوتا پوتی پیدا نہیں ہوتا تو تقریباً 650000 ڈالر ( 525000 پائونڈ) کی رقم انہیں ازالہ کے طور پر لوٹائی جائے۔ یہ انتہائی غیر معمولی مقدمہ ’ذہنی ہراسانی‘ کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔ جوڑے نے اپنی تمام جمع پونجی اپنے بیٹے پر خرچ کر دی۔ 2006 میں 65000 ڈالر خرچ کرکے اسے پائلٹ کی تربیت کے لیے امریکہ بھیجا اور وہ 2007 میں ہندوستان واپس آیا لیکن اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس وقت اس کے خاندان نے 2 سال سے زائد عرصہ تک مالی طور پر اس کی مدد کی۔ 35 سالہ بیٹے کو آخر کار پائلٹ کی نوکری مل گئی۔ جوڑے نے 2016 میں اپنے بیٹے کی اس امید پر شادی کروائی کہ ریٹائرمنٹ کے دوران ان کے پاس ایک پوتا پوتی ہو گا جس کے ساتھ وہ وقت گزار سکیں گے۔ دعویٰ کے مطابق فائیو اسٹار ہوٹل میں شادی کے استقبالیہ سے لے کر 80000 ڈالر کی لگژری کار اور بیرون ملک ہنی مون کے لیے بھی پیسے دیے۔ ان کے بیٹے کی شادی کو 6 سال ہو چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک بچے پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ جوڑے نے ’ذہنی اذیت کے باعث‘ خرچ کی گئی رقم کے ازالہ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس جوڑے کی جانب سے یہ درخواست ہری دوار میں دائر کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے، تاہم زیادہ تر لوگ اس خبر پر خاصے حیران ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جانب دنیا میں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی بچے پیدا نہیں کرنا چاہیے اور ہماری نسل کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ دراصل دنیا کو ختم کرنے کا خیال ایک شخص کی ذہنی اختراع ہے۔ دھیرے دھیرے اس خیال سے دیگر افراد بھی اتفاق کرنے لگے اور اب گروپ کی شکل میں اس طرح کے لوگوں کے کئی گروپس پیدا ہو گئے ہیں۔ اس فلسفہ کو ’اینٹی نیٹلیزم‘ یا ’جنم کی مخالفت‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کوئی نیا خیال نہیں بلکہ اس کا آغاز تاریخ میں قدیم یونان سے ہوا لیکن اسے حالیہ کچھ عرصہ میں سوشل میڈیا کے ذریعہ بہت فروغ ملا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ریڈٹ پر درجنوں ایسے گروپ ہیں جو پیدائش کی مخالفت کرتے ہیں اور ان گروپس کے ہزاروں ممبر بھی ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے خیالات کے جواز میں مختلف وجوہات پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وجوہات جینیاتی میراث، اگلی نسل کے بچوں کو مشکل میں نہ ڈالنے کا خیال، اجازت کا تصور، بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی خطرات سے پیدا ہونے والی پریشانیاں ہیں۔ مذکورہ خبروں سے انسان کی ذہنی پرواز اور تخیل کی انتہا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کا جنم ہی نہ ہو اور اس کرئہ ارض پر انسانی نسل کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو ’جنم کی مخالفت‘ مہم کے لیے جو وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ قدرت کے شاہکار وںاور نعمتوں کے وجود کا مقصد صرف اس کے خالق کو ہی پتہ ہے۔ کوئی دوسرا یہ تعین نہیں کر سکتا کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں، اس کے لیے صرف ایک ہی مالک ہے جو فیصلہ کرتا ہے۔ ہاں، اس کرئہ ارض پر آنے کا مقصد کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔ مخلوق میں سے کسی کے پاس نہ پیدا کرنے کی طاقت ہے اور نہ ہی کسی کو پیدائش روکنے کا اختیار۔ انسان اس میں توازن قائم کرنے کے لیے کوشش کر سکتا ہے۔ اگر اس کوشش میں کوئی تفریق برتی گئی تو اس کا بہت خطرناک نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ اور انجام کا ر توازن پھر وہی واحد خالق قائم کر سکتا ہے۔
جہاں تک وطن عزیز ہندوستان کی بڑھتی آبادی کاتعلق ہے، اس میں توازن قائم کرنے کے لیے آزادی کے بعد سے کئی بارکوششیں کی گئیں۔ کچھ حد تک اس میں کامیابی بھی ملی لیکن اب بھی اس ضمن میں بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سرکار کی جانب سے اس حوالے سے اب تک جتنی بھی پالیسیاں آئیں، اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ بہرحال اتنا ضرور ہوا کہ یہ موضوع عوامی سطح پر زیر بحث آگیا اور لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ ورلڈ بینک کے مطابق جب ہندوستان آزاد ہوا تو ایک عورت اوسطاً 6 بچوں کو جنم دے رہی تھی۔ آبادی پر قابو پانے پر پہلا قدم 1952 کے پہلے پانچ سالہ منصوبہ میں اٹھایا گیا تھا لیکن ملک میں ایمرجنسی کے دوران حکومت نے کہا کہ پرانے طریقوں نے کوئی زیادہ اثرات نہیں دکھائے، اس لیے کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے اور پھر نس بندی پر زور دیا گیا۔ 1976 میں لائی جانے والی اس پہلی قومی آبادی پالیسی کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف طے کیے گئے اور لوگوں کو نس بندی کروانے پر انعام بھی دیے گئے۔ نس بندی کی یہ پالیسی مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے تھی لیکن زیادہ توجہ مردوں پر دی جاتی تھی کیونکہ مردوں پر سرکاری ملازمت یا راشن سے محرومی کی شرائط عائد کرنا آسان تھا اور دوسرا یہ کہ خواتین کے مقابلے مردوں کی نس بندی کرنا کم پیچیدہ عمل تھا اور صحت کے مراکز اس کے لیے بہتر طور پر تیار تھے۔ جب ایمرجنسی ختم ہوئی تو کانگریس کی حکومت بھی ختم ہو گئی اور نئی حکومت کو زبردستی نس بندی کے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ انتخابی شکست کے بعد اہم فرق یہ سامنے آیا کہ اب خاندانی منصوبہ بندی کا مرکز مرد نہیں بلکہ خواتین تھیں۔ 1975-76 میں ہونے والی نسبندی کی مہم میں تقریباً 46 فیصد خواتین کی نس بندی کی گئی، 1976-77 میں یہ شرح 25 فیصد رہ گئی لیکن 1977-78 میں یہ بڑھ کر 80 فیصد ہو گئی۔ 1980 کی دہائی میں یہ 85 فیصد کے لگ بھگ جبکہ 1989-90 میں 91.8 فیصد تک جا پہنچی۔
مگر دوسرا پہلو یہ ہے کہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی 2015-16 میں ایک رپورٹ آئی تھی جس کے مطابق تقریباً 40 فیصد مرد سمجھتے ہیں کہ مانع حمل صرف خواتین کی ذمہ داری ہے جبکہ 20 فیصد یہ بھی مانتے ہیں کہ مانع حمل طریقوں کو استعمال کرنے والی عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتی ہے۔ یعنی مانع حمل کی ذمہ داری بھی خواتین پر عائد ہوتی ہے اور ان کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عورت پر لڑکا پیدا کرنے کا معاشرتی دباؤ بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں دوسری قومی آبادی کی پالیسی 2000 میں منظور کی گئی تھی اور اس میں زبردستی اور سزا کے بجائے بچے اور ماں کی صحت، خواتین کو بااختیار بنانے اور مانع حمل کے طریقوں پر توجہ دی گئی تھی۔ اب مرکزی حکومت نے مانع حمل میں مردوں کا حصہ بڑھانے کے بارے میں بات کرنی شروع کر دی ہے۔وہ اقدامات جو خواتین کی مانع حمل کی ذمہ داری بانٹتے ہیں اور ان کو حقوق دیتے ہیں، وہ مناسب تناسب کے ساتھ آبادی پر قابو پانے کے کہیں بہتر نتائج برآمد کرسکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS