پنکج چترویدی
ابھی گرمی شروع ہی ہوئی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے نلوں میں پانی کے ساتھ گندگی اور بدبو آنے کی شکایتیں آنے لگیں۔ ہری دوار میں تو ہولی کے اگلے ہی دن گھروں میں ایسا پانی آیا، جیسے کہ سیور سے نکلا ہو۔ دارالحکومت کے نزدیکی مغربی اترپردیش کے 7 اضلاع میں پینے کے پانی سے کینسر سے موت کا مسئلہ جب تیزی سے بڑھا تو این جی ٹی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ ہینڈ پمپ کا پانی پایا گیا۔ اکتوبر 2016 میں ہی این جی ٹی نے ندی کے کنارے کے ہزاروں ہینڈ پمپ بند کرکے گاوؤں میں پانی کا متبادل نظام کرنے کے احکام دیے تھے۔ کچھ ہینڈ پمپ تو بند بھی ہوئے، کچھ پر رسمی طور پر لال نشان لگائے گئے لیکن متبادل نہ ملنے سے مجبور گاؤں والے وہی زہر پی رہے ہیں۔
ابھی 4 مارچ کو قومی انسانی حقوق کمیشن نے بہار حکومت کو نوٹس جاری کر کے پوچھا ہے کہ ریاست کے 38 میں سے 31 اضلاع میں لاکھوں لوگوں کو آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے جس سے وہ سنگین طور پر بیمار ہو رہے ہیں جبکہ ہر ایک شہری کے لیے صاف پانی حاصل کرنا اس کا انسانی حق ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو مرکزی حکومت کے کئی منصوبے، دعوے اور نعرے فائلوں میں تیرتے ملیں گے جن میں ہندوستان کے ہر ایک شہری کو وافر مقدار میں بہتر پانی مہیا کروانے کا خواب تھا۔ ان پر اربوں روپے خرچ بھی ہوئے لیکن آج بھی کوئی تقریباً 3.77 کروڑ لوگ ہر سال آلودہ پانی کے استعمال سے بیمار پڑتے ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ بچے دست سے قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ پینے کے پانی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں سے 7.3 کروڑ کام کے دن برباد ہوتے ہیں۔ ان سب سے ہندوستانی معیشت کو ہر سال تقریباً 39 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
ہندوستان کے نیتی آیوگ کے ذریعے جاری واٹر مینجمنٹ انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی ترقی کہیں متاثر ہوگی تو وہ ہوگی پانی کی شدید قلت سے۔ ملک کی 84 فیصد دیہی آبادی پانی کی سپلائی سے محروم ہے تو جو پانی دستیاب بھی ہے، اس میں سے 7 فیصد آلودہ ہے۔ اس کے برعکس ملک کی ’جل کنڈلی‘ سرسری طور پر بھی دیکھیں تو سبھی ستارے اور سیارے ٹھیک ٹھاک گھروں میں ہی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ملک میں پانی کی سالانہ دستیابی 1869 ارب کیوبک میٹر ہے۔ اس میں سے 1123 ارب کیوبک میٹر استعمال کے لائق ہے لیکن ان اعداد و شمار کا جب آگے تجزیہ کرتے ہیں تو پانی کی بے ترتیب بربادی، غیر ضروری استعمال، غیرمساوی تقسیم جیسے خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں جو کہ ساری ’کنڈلی‘ پر ’راہو‘ کے سائے کے مانند ہیں۔
’ہر گھر جل‘ کی مرکز کی اسکیم اس بات میں تو کامیاب رہی ہے کہ گاؤں گاؤں میں ہر گھر تک پائپ بچھ گئے لیکن آج بھی ان پائپوں میں آنے والا 75 فیصد پانی زیر زمین سے آنے والا پانی ہے۔ غور طلب ہے کہ دیہی ہندوستان کی 85 فیصد آبادی پانی کی ضرورتوں کے لیے زیر زمین پانی پر منحصر کرتی ہے۔ ایک تو زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گہرائی میں جا رہی ہے، دوسرے زیر زمین پانی ایک ایسا وسیلہ ہے جو آلودہ ہو جائے تو اس کا حل انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 6.6 کروڑ لوگ ضرورت سے زیادہ فلورائڈ والے پانی کے مہلک نتائج سے نبردآزما ہیں، انہیں دانت خراب ہونے، ہاتھ پیر ٹیڑھے ہونے جیسے امراض جھیلنے پڑ رہے ہیں جبکہ تقریباً ایک کروڑ لوگ ضرورت سے زیادہ آرسینک والے پانی سے متاثر ہیں۔ کئی جگہوں پر پانی میں لوہے(آئرن) کی زیادہ مقدار بھی بڑی پریشانی کی وجہ ہے۔
نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کی تازہ 76 ویں رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں 82 کروڑ لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی مل نہیں پا رہا ہے۔ ملک کے محض 21.4 فیصد لوگوں کو ہی گھر تک صاف و شفاف پانی دستیاب ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ندی-تالاب جیسے سرفیس واٹر کا 70 فیصد بری طرح آلودہ ہے۔ یہ حکومت قبول کر رہی ہے کہ 78 فیصد دیہی اور 59 فیصد شہری گھروں تک صاف و شفاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ اب تک ہر ایک کو پانی پہنچانے کے پروجیکٹوں پر 89,956 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہونے کے باوجود حکومت پروجیکٹ کے فوائد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج محض 45,053 گاوؤں میں نل، پانی اور ہینڈ پمپوں کی سہولت ہے لیکن تقریباً 19,000 گاوؤں ایسے بھی ہیں جہاں صاف پینے کے پانی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے۔
پوری دنیا، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ایک بڑی چنوتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کا اندازہ ہے کہ اکیلے ہندوستان میں ہر روز 3000 سے زیادہ لوگ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثر ہوکر جان گنوا رہے ہیں۔ گندا پانی پینے سے دست اور اِنٹیریٹس (Enteritis)، پیٹ میں درد اور اینٹھن، ٹائیفائڈ، ہیضہ، ہیپاٹائٹس جیسے امراض انجانے میں جسم میں گھر بنالیتے ہیں۔ یہ خوفناک اعداد و شمار حکومت کے ہی ہیں کہ ہندوستان میں تقریباً 1.4 لاکھ بچے ہر سال گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ ملک کے 639میں سے 158 اضلاع کے کئی حصوں میں زیر زمین پانی کھارہ ہو چکا ہے اور اس میں آلودگی کی سطح سرکاری حفاظتی پیمانے کو پار کر گئی ہے۔ ہمارے ملک میں دیہی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 6.3 کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہیضہ، ملیریا، ڈینگو، ٹریکوما جیسی بیماریوں کے ساتھ ساتھ عدم تغذیہ کے معاملے بھی بڑھ رہے ہیں۔
وزارت ماحولیات اور مرکزی ایجنسی ’انٹی گرٹیڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم‘ (آئی ایم آئی ایس) کے ذریعے 2018 میں پانی کی کوالٹی پر کروائے گئے سروے کے مطابق راجستھان میں سب سے زیادہ 19,657 بستیاں اور یہاں رہنے والے 77.70 لاکھ لوگ آلودہ پانی پینے سے متاثر ہیں۔ آئی ایم آئی ایس کے مطابق پورے ملک میں 70,736 بستیاں فلورائڈ، آرسینک، لوہے کے عنصر اور نائٹریٹ سمیت دیگر نمکیات اور بھاری دھاتوں کے مکسچر والے آلودہ پانی سے متاثر ہیں۔ اس پانی کی دستیابی کے دائرے میں 47.41 کروڑ آبادی آگئی ہے۔
ملک کے پینے کے پانی سے زہر کے اثر کو صفر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پانی کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کم ہو اور ندی-تالاب وغیرہ کے سرفیس واٹر کو گندا ہونے سے بچایا جائے۔ زیر زمین پانی کے اندھادھند استعمال کو روکنے کے لیے قانون بنائے گئے ہیں لیکن زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے والوں پر قدغن لگانے کے لیے قوانین کتابوں سے باہر نہیں آپائے ہیں۔ یہ اندیشہ سبھی کو ہے کہ آنے والی دہائیوں میں پانی کے لیے حکومت اور معاشرے کو بیحد مشقت کرنی ہوگی۔
[email protected]
پانی ہو تو صاف و شفاف ہو!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS