زین شمسی
پادشاہی حکم صادر کیا کرتی ہے، غلامی مجبوری کو عادت بنادیتی ہے اور جمہوریت مشورے اور دلیلوں سے پختہ ہوتی ہے۔ عوامی حکومت میں سرکار کا عوام مخالف ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس سے خوفناک واقعہ تب ہے جب جمہوریت کے تمام ستون عوام کی مخالفت میں اترجائیں ۔ ان کے بڑے اہم فیصلے جانبداری اور ناانصافیوں کو بلندی عطا کرنے لگیں اور جھوٹ کو سچ پر یوں ترجیح حاصل ہو جائے کہ لوگوں کو سچ بولنے میںخوف پیدا ہو نے لگے۔ تب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اس طرح کے معاشرہ کا خاتمہ کہاں پر ہوگا۔ ہم اپنے ملک اور سماج کو کس سمت میں لے جا نا چاہتے ہیں اور جس سمت میں یہ ملک جا رہا ہے ، کیا اس کی آتما، اس کا کلچر، اس کی شناخت بچ پائے گی۔ اچانک ملک کی فضا اس طرح کیوں بدل گئی کہ ملک کی اقلیت خود کو نہ صرف غیرمحفوظ بلکہ انتہائی مجبور و بے بس سمجھنے لگی ۔ اس اقلیت نے جس نے پاکستان کے بٹوارے کے وقت محمد علی جناح اور دو قومی نظریہ کو یکسر مسترد کر دیا تھا، صرف اس لیے کہ اسے بھارت اپنے دل سے عزیز تھا اور آج اسی عزیز بھارت میں اسے کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے۔ وہی اکثریت جس نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا خیال رکھا، آج وہ اس سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ غیروں ساسلوک روا رکھ رہی ہے۔
اترپردیش الیکشن میں جیت کے بعد بلڈوزر کے ساتھ جشن منانا خوفزدہ کرنے والا تو تھا ہی، بلکہ یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ جسے دیکھ کر آئندہ سرکار کی کارروائی کا پتہ چلتا ہے۔ جمہوریت میں ہار اور جیت ایک چناوی عمل ہے، سرکار کی تشکیل کے بعد بر سراقتدار پارٹی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اس ملک کو، اس ریاست کو ترقی سے ہمکنار کرائے تاکہ اس جگہ رہنے والے لوگوں کے بنیادی مسائل ختم ہوں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں، مگر ایساکچھ ہوتا نہیں ہے ۔ برسوں سے وعدے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اسے نبھانے کی قوت کسی بھی سرکار میں نظر نہیں آئی، لیکن اب گزشتہ کچھ برسوں میں سیاست کی جیت کو سماج پر تھوپنے کا جو رویہ سامنے آرہا ہے، وہ ایک خطرناک رخ اپنا رہا ہے۔ جمہوریت میں سماج سیاست سے بڑا ہوتا ہے، مگر اب سیاست سماج پر حاوی ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ میں ٹکرائو کی نوبت آگئی ہے۔ مہنگائی،بے روزگاری اور عوامی فلاح کی اسکیمیں سماجی شعور سے لاپتہ ہوگئیں اور اس کی جگہ ہندو، مسلمان کی سیاست نے سماج کا رویہ ہی تبدیل کر دیا۔ اس پورے کھیل میں عدالت، انتظامیہ اور میڈیا نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ عدالت کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے آئے کہ ججوں نے ہی اس کی مخالفت کر دی، میڈیا پانچ برس سے منافرت کا پٹارہ لے کر ٹی وی اسٹوڈیو میں جم کر بیٹھ گیا، وہیں انتظامیہ کے ہاتھ میں بھی جانبداری کی لاٹھی چمکنے لگی ہے۔ ہر وہ معاملہ جس سے مسلمانوں کا سروکار ہے، سرکار اس کے خلاف کھڑی ہونے لگی۔ سرکار کے اس رخ کو دیکھ کر سیدھے سادے، ناخواندہ اور غریب عوام بھی اسی نفرت کو سچ سمجھنے لگے جو صرف ایک تصوراتی چیز ہے۔
کیا ایسا کبھی دیکھنے کو ملا کہ کوئی فلم ریلیز ہو اور سرکار کے وزرا اس کی تشہیر کرنے لگیں یہاں تک کہ وزیراعظم بھی اس میں دلچسپی لیں۔ آخر ’کشمیر فائلس ‘ میں اتنی دلچسپی کیوں؟ صرف اس لیے کہ اس میں کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا تصوراتی درد دکھایا گیا یا یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح کشمیریوں نے ہندوؤں کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اگر اسی طرح کی فلمی ہمدردی بٹورنی ہے تو اسی ہندوستان میں کئی ایسی فائلس موجود ہیں، اس پر بھی فلمیں بنانے کا مشورہ دیا جانا چاہیے۔فلمیں عوام کی تفریح کا سب سے سستا میڈیم تھا، اسے بھی کاروباریوں نے پی وی آر میں تبدیل کر کے مہنگا کر دیا اور اب فلموں کے ذریعہ سیاست کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا گیا، گویا اب اربوں کی فلم انڈسٹری بھی اوندھے منھ گرنے والی ہے، کیونکہ بھارت کا ایک بڑا اقلیتی طبقہ فلموں کا دیوانہ ہے۔ ویسے مسلمانوں کو ویلن بنا کر پیش کرنے کا نایاب طریقہ تو برسوں پہلے سے شروع ہو گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس میں کوئی بھی فلم کامیاب نہیں ہوئی مگر اب پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے اور اسے غیر قوموں کے نزدیک ویلن بنانے کا کام جس طرح شروع کیا گیا ہے، وہ خطرناک ہے۔دوسرا معاملہ اسکولوں میں بچیوں کے حجاب کا ہے۔ اسکول یونیفارم کی آڑ میں مسلم شناخت کو تباہ کرنے کی چاہت میں عدالت کی مہر یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی خاص کمیونٹی کو برباد کرنے میں اگر ہندوستانی تہذیب کو بھی برباد کرنا پڑے تو اس سے پیچھے نہیںہٹاجائے گا۔کرناٹک میںبچیوں کے ساتھ جس طرح کا واقعہ ہوا، وہ دل کو دہلا دینے والا تھا، ان لوگوں کے ساتھ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ وہ مسلمانوں کی بچیاں تھیں ورنہ جسم کو ڈھانپ کر رکھنا ہر مہذب سماج کی سماجیات ہے۔ لڑکیوں کے لیے لباس، شرم و حیا اور مردوں کے سماج میں خود کو آگے بڑھانے اور محفوظ رکھنے کے لیے سب سے ضروری ہے۔ ایک طرف وزیراعظم ’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘ کا نعرہ دیتے ہیں اور دوسری طرف انہیں صرف اس لیے اسکولوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سر کو کیوں ڈھانپا۔ دراصل
جو پردوں میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں
قیامت وہی تو اٹھائے ہوئے ہیں
اسکولوں میں پوجا ہوتی ہے، سروتی وندنا ہوتی ہے، ہولی کھیلی جاتی ہے، یہاں تک کہ مندر بھی ہوتا ہے، مگر اس پر کبھی کسی مسلمان نے اعتراض نہیں کیا، مگر حجاب کو قومی ایشو بنا کر اس پر عدالت کی مہر بھی ثبت کر دی گئی۔ صرف اس لیے مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوجائے یا پھر اچھے اسکولوں میں مسلم بچیوں کے داخلہ پر پابندی لگ جائے۔
آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جو آگیا
کتنے نقاب چہرہ اسرار سے اٹھے
دراصل مسلم بچیوں کے چہرے سے نقاب نہیں ہٹایا جارہا ہے، یہ تو سرکار کے چہرے سے نقاب ہٹ رہا ہے، جو ایک سو تیس کروڑ ہندوستانیوں کی ترقی کا دم بھرتی رہی ہے۔ اب یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بھارت بدل چکا ہے، بھارت کی ہر چیز بدل چکی ہے۔ اس کا نظریہ بدل چکا ہے، اس کا سیکولرزم بدل چکا ہے، اس کی یکجہتی و سالمیت داغدار ہورہی ہے اوراسے بھارت کے بیشتر لوگ پسند کررہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مسلمان بھی اپنی زندگی کا سلیقہ اور طریقہ بدلیں، نہج بدلیں، خو بدلیں، سوچ بدلیں، کیونکہ اس نئے بھارت میں روایتی،اخلاقی اور تہذیبی روش کا سرے سے خاتمہ ہو چکا ہے۔
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]