حجاب پر فیصلہ مسلم بچیوں کیلئے مایوس کن

0

خواجہ عبدالمنتقم

کرناٹک ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کی اس پابندی سے متعلق فیصلہ کو درست قرار دیا ہے کہ اسکولوں و کالجوں میں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں۔عدالت نے فریقین کی دلائل سننے کے بعد یہ نتیجہ اخد کیا کہ اسلام میں حجاب کو ایک لازمی پریکٹس نہیں مانا گیا ہے یعنی حجاب پہننا لازمی نہیں ہے۔اگرعدالت کی اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے توبھی اسے رواجی قانون (customary law) کا درجہ دے کر مسلم بچیوں کو حجاب پہننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔یہ ان کی بحیثیت مسلمان شناخت کا بھی مظہر ہے۔ اس ضمن میں بار بار سکھوں کی پگڑی اور کرپان کا حوا لہ دیا ہے۔ آئین کی دفعہ25(2) میں شامل تشریح 1میں صرف یہ التزام ہے کہ کرپان باندھنا اوراسے ساتھ رکھنا سکھ مذہب کے عقیدہ میں شامل ہونا متصور ہوگامگر پگڑی پہننے کی بابت کوئی التزام نہیں ہے۔اگر پگڑی پہننے یا دستار کے استعمال کی اجازت اس بنیاد پر دی گئی ہے کہ وہ ہمارے سکھ بھائیوں کی شناخت ہے توپھر مسلم بچیوں نے کیا خطا کی ہے، انہیں بھی حجاب پہننے کی اجازت کم از کم ان کی شناخت کے حوالہ سے ہی سہی کیوں نہ دی جائے۔
عدالت نے اپنے 129 صفحات پر مشتمل فیصلے کی شروعات سارا سلنگر کی حجاب سے متعلق کتاب سے ماخوذ ایک اقتباس کا حوالہ دے کر کی ہے جس میں مصنف نے حجاب کے مسئلہ کی پیچیدگی کی جانب اشارہ تو کیا ہے مگر اس بات کو قبول کیا ہے کہ حجاب کا استعمال ایک طویل عرصہ سے کیا جا رہا ہے،کہیں رضاکارانہ طور پر تو کہیں سماج کے دباؤ میں اورساتھ ہی اس رائے کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ ہمیشہ مذہب اور ثقافت سے اثرانداز ہوتا رہا ہے اور یہ کہ حجاب سادہ سی چیز ہے مگر یہ سادگی فریب دہ ہے کیونکہ حجاب ان لوگوں کے عقائد، اعمال ،سمجھ اور ناسمجھی کا مظہر ہے جو اسے استعمال کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حجاب محض سر پر ڈھکنے کا کپڑا نہیںبلکہ یہ کئی صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں طرز حیات رہا ہے۔جج صاحبان نے متذکرہ مصنف کی کتاب کا حوالہ دے کرحجاب اور پردے سے متعلق پیچیدگیوں کا اشارہ تو کر دیالیکن اگر وہ یہ بھی تحریر فرما دیتے کہ جب کوئی کا م ایک طویل عرصے تک بلااختلاف ایک ہی خاص طریقے سے کیا جائے اور وہ بھی ایک مخصوص فرقے یا طبقے کے ذریعہ تو یہ کہا جائے گا کہ اس کام کو کچھ خاص طریقے سے کرنے کا رواج ہے۔ اگر عدالت حجاب پہننے کوایک رواج عام اور معقول رواج تسلیم کرلیتی تو رواجی قانون کی رو سے تعلیمی اداروں میں بھی حجاب پہننے کو درست ٹھہرایا جا سکتا تھا۔
مشہور فرانسیسی ماہرقانو ن کوویل کا کہنا ہے کہ ’وہ قانون یا حق جو تحریر نہ ہوا ہو بلکہ ہمارے آباواجداد کی منظوری سے ایک عرصے تک استعمال ہونے کی وجہ سے قائم ہو اور روزانہ اس پر عمل ہورہا ہو تووہ رواجی قانون کے زمرہ میں آتا ہے۔۔۔‘ پریوی کونسل نے ایک بہت پرانے معاملے( 1943 الٰہ آباد ویکلی رپورٹر ص 219)میں اس بارے میں ایک بڑا واضح فیصلہ دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ رواج کو جائز قرار دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قدیم، مسلسل ، معقول و معین ہو اور غیر اخلاقی نہ ہو۔اس کا اطلاق حجاب پر بھی ہوتا ہے۔ حجاب کا استعمال اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔اسے کسی بھی نقطۂ نظر سے غیر اخلاقی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے قدیم ، مسلسل و معقول ہونے کی بابت بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
اب رہی بات کرناٹک ہائی کور ٹ کے متذکرہ بالا فیصلہ کی تو اس کا احترام ضروری ہے مگر انصاف کا منشا یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ حقیقتاً انصاف کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ نے متاثرین کی جانب سے کی گئی اس استدعا کو بھی قبول نہیں کیا کہRight of accomodation کے مدنظر بچیوں کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔اس حق سے مراد ہے ان رکاوٹوں کو دور کرنا جن کے سبب کسی کو مختلف خدمات و سہولیات بشمول حصول تعلیم کے لیے اپنے اسکول و کالج تک رسائی میں دقت آرہی ہو۔ عدالت نے آئین کے تحت عطا کی گئی اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی آزادی کے بارے میں یہ کہا ہے اور صحیح ہی کہا ہے کہ آئین کے تحت ان پر بھی معقول پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں مگر یاد رہے کہ یہ پابندیاں دفعہ 19(2)اور دفعہ25(1) کے تحت صرف اس صورت میں لگائی جا سکتی ہیںجب ان سے، حسب صورت، امن عامہ، اخلاق عامہ ، صحت عامہ ، ملک کی سالمیت وغیرہ پر منفی اثر پڑے یا پڑنے کا امکان ہو۔ اب ذرا بتائیے کہ کیا حجاب سے اس قسم کا کوئی خطرہ لا حق ہو سکتا ہے؟اب رہا سوال کہ معقول پابند یاں کیا ہیں؟ معقول یا مناسب پابندیاںوہ ہیںجو من مانے ڈھنگ سے نہ لگائی جائیں یا جو شدید نوعیت کی نہ ہوں اور وہ پابندیاں صرف اس حد تک ہوں، جس حد تک مفاد عامہ کے لیے ضروری ہوں۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ کسی ایک ہائی کورٹ کا فیصلہ دوسری ہائی کورٹوں کے لیے قابل پابندی نہیں۔ البتہ کسی ریاستی ہائی کورٹ کافیصلہ اس ریاست کی حدود میں ہی قابل پابندی ہوگا اور دوسری ہائی کورٹ انصاف کی غرض سے اس نظیرکو ترغیبی نظیر(persuasive precedent) کے طوراپنے فیصلے کی بنیاد بنا سکتی ہے۔دوسرے یہ کہ اس فیصلہ کا اطلاق پورے ملک پر نہیں ہوتا، تیسرے یہ کہ کرناٹک میں بھی اس کا اطلاق تعلیمی اداروں تک محدود ہے نہ کہ دیگر مقامات پر۔
جہاں تک پردے کی بات ہے، اگر پردہ اور سرڈھانکنا احترام کی نشانی نہیں تو ہم سب مندر، مسجد اورگرودوارے میں اپنا سر ڈھانک کر کیوں جاتے ہیں اور خواتین اپنے دوپٹوں سے اپنے جسم کو کیوں ڈھانکتی ہیں؟ اب رہی بات پردہ کرنے یا نہ کرنے کی ،حجاب، برقعہ پہننے یا نہ پہننے کی تو کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کے لیے کوئی ڈریس کوڈمقررکرے۔کوئی بھی لباس کسی پر تھوپا نہیں جا سکتااور نہ مذہبی امور میں کسی طرح کی دخل اندازی کا کوئی قانونی جواز ہے۔جہاں تک رہی بات کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پہننے کی تو اگر کسی ادارے میں کوئی ڈریس کوڈ ہے اور اس کے قواعد و ضوابط میں یہ التزام ہے کہ طلبا ڈریس کوڈ کے علاوہ کوئی بھی دیگر ’ شناختی چیز‘ نہیں پہن سکتے اورکسی نے اس ادارے کے ضوابط کوپڑھ کر اور سمجھ کر وہاں داخلہ لیا ہے تو بہتر یہی ہے کہ اس کوڈ کا احترام کیا جائے لیکن اگر اس ادارے میں ایک طویل عرصہ سے بچیوں کو حجاب پہننے کی اجازت دی جاتی جارہی ہے اور اچانک بد نیتی سے اس پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ یقینی طور پر قابل مذمت ہے۔اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے اور عدالت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ متذکرہ دفعات کی تعبیر ان دفعات کی آئین میںشمولیت کی غرض و غایت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کرے گی۔ اس معاملے میں دونوں جانب سے دیگر ممالک کی نظائر بھی پیش کی گئیںمگر عدالت نے یہ کہا کہ ان پر غور تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں فیصلے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ ہمارے لیے قطعی و سندی نظائر نہیں ہیں،دوسرے یہ کہ ہمارے ملک کی صورت حال محولہ ممالک سے مختلف ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS