آدھا سچ

0

1925 میں ایڈولف ہٹلر نے ’میری لڑائی‘(Mein Kampf) کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، اس کتاب میں ہٹلر نے جھوٹ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسے پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرنے کے محاسن اور خوبیوں پر کئی باب باندھے ہیں۔اپنی اس کتاب کی تشہیر کی ذمہ داری ہٹلر نے اپنے پروپیگنڈہ منسٹر جوزف گوئبلزکو دی تھی۔ہر نازی باشندہ تک ہٹلر کا پیغام پہنچانابھی بحیثیت پروپیگنڈہ منسٹر گوئبلز کی ذمہ داری تھی۔جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ چائے سے زیادہ کیتلی گرم ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح جھوٹ اور کذب بیانی کے استعمال میں گوئبلز،ہٹلر سے کئی قدم آگے نکل گیا۔اس نے جھوٹ کے سلسلے میں کئی اصول وضع کیے تھے۔ جھوٹ کوآدھے سچ کا پہیہ لگاکر زمانے میںپھیلانے کا ہنر بھی اسی نے ایجاد کیاتھااوراس میں اسے بڑی کامیابی بھی ملی۔گوئبلز کاکہنا تھا کہ اگر آپ ایک جھوٹ بولتے ہیں اور اسے ہی دہراتے چلے جاتے ہیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے اور جتنا بڑا جھوٹ ہوگا، اتنا ہی جلدی وہ مقبول ہوگا۔ میڈیا پر کنٹرول کا دوسرا اصول بھی گوئبلز نے ہی وضع کیا تھا۔ پروپیگنڈہ منسٹر کی حیثیت سے جرمنی کے تمام میڈیا پرا س کا کنٹرول تھا اور اس کی رائے تھی کہ میڈیا پر اتنا کنٹرول ہونا چاہیے کہ آپ اس کی ساز پر اپنی مرضی کی ہر دھن بجا سکیں۔ آج 100سال بعد بھی گوئبلز کا یہ اصول مقبول عام ہے۔ ہندوستان جنت نشان میں تو گوئبلز کا یہ اصول پوری آب و تاب کے ساتھ حکمرانی کر رہا ہے۔اس کی تازہ مثال ’ دی کشمیرفائلس ‘ نام کی فلم ہے اوراس کے پروپیگنڈہ کیلئے اتری بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہیں۔
’دی کشمیر فائلس‘ نام کی یہ فلم اترپردیش سمیت بی جے پی کی حکمرانی والی کئی ریاستوں کے سنیما گھروں میں مفت دکھائی جارہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امت شاہ اور مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈران اس فلم کی تشہیری مہم میں اترے ہوئے ہیں۔عوام سے یہ تقاضا بھی کیا جارہا ہے کہ انہیں اپنی قومیت اور حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے یہ فلم دیکھنی چاہیے۔یعنی فلم ’دی کشمیر فائلس‘ نہ دیکھنے والے کی حب الوطنی پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ90کی دہائی میں جموں و کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا تھااور انہیں بڑی تعداد میں اپنے گھروں اور زمینوں سے بے دخل ہوناپڑا۔اس بے دخلی کی بہت سی سیاسی اور سماجی وجوہات تھیں لیکن فلم میں ان وجوہات کا ذکر نہیں کیاگیا ہے۔ فلم کے ہدایت کار وویک اگنی ہوتری ہیں جن کا سیاسی نظریہ بھی فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ہے لفظ ’اربن نکسل‘ نام کی کتاب بھی ان ہی کی لکھی ہوئی ہے ۔فلمی ناقدین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ فلم آدھے سچ کی عکاس ہے جو جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اس فلم میں سکہ کا صرف وہ پہلو دکھایاگیا ہے جس سے ملک میں فرقہ پرستی بڑھے اور مخصوص طبقہ کے خلاف منافرت میں اضافہ ہو۔اس فلم میں ایک منظر اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ کے بارے میں بھی پیش کیاگیا ہے۔لیکن وہ حقائق کے بالکل برخلاف ہیں۔ یادرہے کہ روی کھنہ 25 جنوری 1990کو سری نگر میں شہید ہونے والے فضائیہ کے چار اہلکاروں میں سے ایک تھے۔فلم دیکھنے کے بعد شہید اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ کی اہلیہ نرملا نے عدالت میں درخواست دائر کرکے دعویٰ کیاکہ فلم میں دکھائے گئے حقائق ان کے شوہر کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے برعکس ہیں۔اس لیے اس فلم سے ان کے شوہر کی تصویرکشی کرنے والے مناظر کو ہٹایا جائے۔اس درخواست پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج دیپک سیٹھی نے باقاعدہ حکم جاری کرکے، فلم کو شہیداسکواڈرن لیڈر روی کھنہ سے متعلق کاموں کی عکاسی کرنے والے مناظر دکھانے سے روک دیا ہے۔ عدالت کے اس حکم سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہدایت کار وویک اگنی ہوتری نے فلم میں پوری سچائی نہیں بتائی ہے اور کہانی مکمل طور پر سچ نہیں ہے۔
فلم کو کشمیرکی تاریخ کا عکاس کہنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تاریخ کو آدھے ادھورے حقائق سے جوڑ کر نہ تو پڑھاجاسکتا ہے اور نہ ہی دیکھاجاسکتا ہے۔ تاریخ مکمل حقائق کا تقاضا کرتی ہے جو اس فلم میں مفقود ہے۔یاد رہے کہ 1990میں جب کشمیر میں دہشت گردی کا آغاز ہوا تھا، 89 پنڈت مارے گئے تھے اور ان ہی دنوں میں 1635 مسلمانوںکا بھی قتل ہوا تھا یہ حقائق خود جموں و کشمیر کی پولیس نے جاری کیے ہیں لیکن ان کا ذکر اس فلم میں نہیں ہے۔ اسی طرح کئی ایک ایسے واقعات ہیں جن کافرقہ وارانہ منافرت بڑھانے کیلئے قصداً ذکر نہیں کیاگیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت مرکز میں بی جے پی کے حمایت یافتہ راجہ وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت تھی جو 1989 سے ہی اقتدار میں تھی اور جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن تھے جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔1990کے بعد سے2007تک کل 17 سالوں میں ہونے و الے مختلف دہشت گردانہ حملوں میں فقط 399 پنڈت مارے گئے تھے جب کہ ان ہی دہشت گردانہ حملوں میں 15000 مسلمانوں کا قتل کیاگیاتھا۔
جوزف گوئبلزکے اصول کے عین مطابق یہ فلم ان تمام حقائق کے ذکر سے خالی ہے، اس میں یکطرفہ طور پرآدھا سچ بیان کیاگیا ہے جو کہ مکمل جھوٹ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جھوٹ کی زمین پر منافرت کی فصل اگانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک دن ایسا بھی آیاتھاجب جوزف گوئبلز اپنے ہی جھوٹ کاشکارہوگیا اور اپنے بچوں کوزہر دینے کے بعد اسے اپنی اہلیہ کے ساتھ خودکشی کرنی پڑی تھی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS