عدالت عظمیٰ کا مثالی فیصلہ

0

جمہوری ممالک میں عوام کی آخری امید عدالتیں ہوتی ہیں اور عدالتوں میں بھی عدالت عظمیٰ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوںکو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ سنائے گی۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک کی عدالت عظمیٰ پر لوگوں کا اعتماد اس کے باوجود قائم ہے کہ کئی اہم فیصلے سنانے والے ایک جج صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد پارلیمنٹ کی راہ اختیار کی تھی۔ سی اے اے کے مظاہرین پرعدالت عظمیٰ کے فیصلے نے یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوری نظام قانون کی پاسداری سے چلتا ہے، خودساختہ ضابطے سے نہیں۔ یوپی حکومت کی طرف سے سی اے اے کے مظاہرین کی ضبط جائیدادوں اور ہرجانے کے نام پر وصول کیے گئے روپیوں کو واپس کروانے کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ایک مثالی فیصلہ ہے، یہ فیصلہ یہ بتاتا ہے کہ جمہوری نظام میں عدلیہ کے رول کی کیا اہمیت ہے اور اسے کس طرح کا رول ادا کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ دیکھ اور سن کر بھی خبریں سمجھتے ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی کی کرونالوجی کا ذکر پہلے کیا جا چکا تھا، چنانچہ سی اے اے کے پاس ہونے کے بعد یہ سمجھنے میں لوگوں کو دیر نہ لگی کہ اس کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا۔ سی اے اے کے خلاف مسلمانوں نے ہی نہیں، ان لوگوں نے بھی احتجاج کیا جو ملک کے حالات سے واقف تھے، آسام میں ہوئے این آر سی کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ جب آسام کی سابق وزیراعلیٰ سیدہ انوارہ تیمور کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہوا، جب ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ جونیئر کمیشنڈ آفیسر، محمد ثناء اللہ ہندوستان کی شہریت ثابت نہیں کرسکے، ان کا نام آسام کی فائنل این آر سی لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا، جب سابق صدر فخرالدین علی احمد کے رشتہ داروں کو این آر سی کی فائنل لسٹ میں جگہ نہیں ملی، پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ اگر این آر سی ہوتا ہے تو سارے ہندوستانی شہریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، خاص کر ایسی صورت میں جب بہار، آسام، یوپی کے خاصے لوگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں، شمالی بہار میں 76 فیصد لوگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں، آسام کی ندیاں بھی ہر سال سیلاب سے لوگوں کا امتحان لیتی ہیں، 2020 میں آسام کے 2,200 گاوؤں سیلاب میں ڈوبے ہوئے تھے تو ایسی صورت میں لوگ جان بچائیں یا کاغذات بچائیں؟ پھر یہ کہ سی اے اے سے حکومت نے مسلمانوں کو چھوڑ کر افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینیوں، پارسیوں، عیسائیوں کے لیے یہ گنجائش رکھی کہ انہیں ہندوستان کی شہریت مل سکتی ہے، اس لیے مسلمانوں کا سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنا فطری تھا؟ دوسری طرف آسام کے این آر سی حامیوں نے بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر سی اے اے ہی لانا تھا تو پھر این آر سی لانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا۔ احتجاج میں کہیں زیادہ شدت تھی، کہیں کم۔ اترپردیش اور آسام کے احتجاج میں بعض جگہ زیادہ شدت تھی، پرامن احتجاج پرتشدد احتجاج میں بدل گیا، یہ بحث کا الگ موضوع ہے کہ ایسا کیوں ہوا، بحث کا یہ بھی الگ موضوع ہے کہ کسانوں کے احتجاج پر حکومت نے زرعی قوانین واپس لے لیے تو سی اے اے کو واپس لینے میں اسے کیا قباحت تھی، مگر جواب طلب سوال یہ ہے کہ ملک کے کسی اور حصے میں مظاہرین کی جائیداد ضبط نہیں کی گئی، ان سے ہرجانے کے نام پر روپے وصول نہیں کیے گئے تو پھر یوپی میں اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ حکومت اگر احتجاج کے ہی خلاف تھی تو اس کا رویہ سبھی احتجاجوں کے خلاف یکساں ہونا چاہیے تھا اور اگر کسی وجہ سے وہ سی اے اے ، این آر سی کے خلاف احتجاج کو الگ زاویے سے دیکھ رہی تھی تب بھی اسے مظاہرین کی جائیداد ضبط کرنے، ان سے ہرجانہ وصول کرنے کے لیے قانون کا خیال کرنا چاہیے تھا، یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اس کا بھی ایک دائرہ ہے، وہ اسی دائرے میں رہ کر کام کر سکتی ہے چاہے اس میں وقت زیادہ لگے مگر یوپی حکومت نے ایسا نہیں کیا، البتہ اب جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ کے سامنے اس نے یہ مانا ہے کہ مظاہرین کے خلاف کارروائی ضابطے کے مطابق نہیں ہوئی تھی، چنانچہ 2019 میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران سرکاری یا پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں اس نے جائیدادیں ضبط کرنے اور پیسے وصول کرنے کے لیے جن 274 لوگوں کو نوٹس جاری کیا تھا، اسے واپس لے رہی ہے۔ یہ ہار کسی کی نہیں، جمہوریت کی جیت ہے۔ حکومتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان میں جمہوریت ہے، اسی لیے لوگ جن فیصلوں سے متفق نہیں ہوتے، ان پر احتجاج کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوری نظام ہے تبھی انہیں احتجاج کا حق حاصل ہے، چنانچہ ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں، مسئلوں کا حل کرنے اور کرانے پر توجہ دیں اور اگر بہت ضروری ہو تبھی احتجاج کریں مگر جائز مطالبے کے لیے امن کا خیال رکھتے ہوئے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS